Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوست پر اشعار

شاعری ،یا یہ کہاجائے

کہ اچھا تخلیقی ادب ہم کو ہمارے عام تجربات اور تصورات سے الگ ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے وہ ہمیں ان منطقوں سے آگاہ کرتا ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی سے الگ ہوتے ہیں ۔ کیا آپ دوست اور دوستی کے بارے ان باتوں سے واقف ہیں جن کو یہ شاعری موضوع بناتی ہے ؟ دوست ، اس کی فطرت اس کے جذبات اور ارادوں کا یہ شعری بیانہ آپ کیلئے حیرانی کا باعث ہوگا ۔ اسے پڑھئے اور اپنے آس پاس پھیلے ہوئے دوستوں کو نئے سرے سے دیکھنا شروع کیجئے ۔

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

کیف بھوپالی

عیش کے یار تو اغیار بھی بن جاتے ہیں

دوست وہ ہیں جو برے وقت میں کام آتے ہیں

نامعلوم

دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

حفیظ بنارسی

عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے

دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے

ماہر القادری

اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا

قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا

راجیندر منچندا بانی

بہت ضخیم کتابوں سے چن کے لایا ہوں

انہیں پڑھو ورق انتخاب ہیں مرے دوست

لیاقت علی عاصم

یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

قتیل شفائی

آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں

دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

ہم کو اغیار کا گلا کیا ہے

زخم کھائیں ہیں ہم نے یاروں سے

ساحر ہوشیار پوری

سنا ہے ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ دنیا میں

کہ جن سے ملیے تو تنہائی ختم ہوتی ہے

افتخار شفیع

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا

جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

ناصر کاظمی

کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے

پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا

نصیر ترابی

عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں

سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف

عرش ملسیانی

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی

دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو

اسد علی خان قلق

توڑ کر آج غلط فہمی کی دیواروں کو

دوستو اپنے تعلق کو سنوارا جائے

سنتوش کھروڑکر

تیری باتیں ہی سنانے آئے

دوست بھی دل ہی دکھانے آئے

احمد فراز

دوست نے دل کو توڑ کے نقش وفا مٹا دیا

سمجھے تھے ہم جسے خلیل کعبہ اسی نے ڈھا دیا

آرزو لکھنوی

یہ دل لگانے میں میں نے مزا اٹھایا ہے

ملا نہ دوست تو دشمن سے اتحاد کیا

حیدر علی آتش

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

خمار بارہ بنکوی

دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

حیدر علی آتش

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

کلیم عاجز

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر

کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے

بشیر بدر

مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے

یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے

شکیل بدایونی

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں

کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں

باقی صدیقی

دوست دل رکھنے کو کرتے ہیں بہانے کیا کیا

روز جھوٹی خبر وصل سنا جاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے

یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

خمار بارہ بنکوی

اب وہ تتلی ہے نہ وہ عمر تعاقب والی

میں نہ کہتا تھا بہت دور نہ جانا مرے دوست

فیصل عجمی

ترتیب دے رہا تھا میں فہرست دشمنان

یاروں نے اتنی بات پہ خنجر اٹھا لیا

فنا نظامی کانپوری

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

مرزا غالب

اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

لالہ مادھو رام جوہر

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حفیظ جالندھری

دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے

دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

خمار بارہ بنکوی

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں

دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

پروین شاکر

میری تو جان ہی نکل گئی جب

دوست کہہ کر مجھے پکارا گیا

ستیش دوبے ستیارتھ

دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں

جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے

تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے

احمد فراز

جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو

رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو

نامعلوم

ذکر میرا آئے گا محفل میں جب جب دوستو

رو پڑیں گے یاد کر کے یار سب یاری مری

صدا انبالوی

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں

آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے

بشیر بدر

زمانوں بعد ملے ہیں تو کیسے منہ پھیروں

مرے لیے تو پرانی شراب ہیں مرے دوست

لیاقت علی عاصم

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

احمد فراز

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

راحت اندوری

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

مرزا غالب

دوستی عام ہے لیکن اے دوست

دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

حفیظ ہوشیارپوری

بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن

جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے

اطہر نفیس

آدمی ہوں وصف پیغمبر نہ مانگ

مجھ سے میرے دوست میرا سر نہ مانگ

طاہر فراز

دوستوں اور دشمنوں میں کس طرح تفریق ہو

دوستوں اور دشمنوں کی بے رخی ہے ایک سی

جان کاشمیری

یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد

دوستوں کے کرم یاد آتے رہے

خمار بارہ بنکوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے