تمام
تعارف
غزل179
شعر195
ای-کتاب130
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 36
آڈیو 45
ویڈیو 79
قطعہ2
قصہ5
بلاگ5
دیگر
نعت1
داغؔ دہلوی کے اشعار
تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا
وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل دے تو اس مزاج کا پروردگار دے
جو رنج کی گھڑی بھی خوشی سے گزار دے
آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے
ہمیں ہے شوق کہ بے پردہ تم کو دیکھیں گے
تمہیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر لینا
-
موضوع : بولڈ شاعری
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں
-
موضوع : تغافل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
تشریح
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
شفق سوپوری
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
کل تک تو آشنا تھے مگر آج غیر ہو
دو دن میں یہ مزاج ہے آگے کی خیر ہو
لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بات تک کرنی نہ آتی تھی تمہیں
یہ ہمارے سامنے کی بات ہے
دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
-
موضوع : مشہور اشعار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
-
موضوع : اردو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہاتھ رکھ کر جو وہ پوچھے دل بیتاب کا حال
ہو بھی آرام تو کہہ دوں مجھے آرام نہیں
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
-
موضوع : دعا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
-
موضوع : جنت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
-
موضوع : اردو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جن کو اپنی خبر نہیں اب تک
وہ مرے دل کا راز کیا جانیں
چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق
تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ تو نہیں کہ تم سا جہاں میں حسیں نہیں
اس دل کو کیا کروں یہ بہلتا کہیں نہیں
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری
لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری
یوں بھی ہزاروں لاکھوں میں تم انتخاب ہو
پورا کرو سوال تو پھر لا جواب ہو
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
-
موضوع : شراب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی
میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
-
موضوع : حسن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عرض احوال کو گلا سمجھے
کیا کہا میں نے آپ کیا سمجھے
ساقیا تشنگی کی تاب نہیں
زہر دے دے اگر شراب نہیں
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص داغؔ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
-
موضوع : وعدہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے
مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے