Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شراب پر اشعار

اگر آپ کو بس یوں ہی

بیٹھے بیٹھے ذرا سا جھومنا ہے تو شراب شاعری پر ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔ آپ محسوس کریں گے کہ شراب کی لذت اور اس کے سرور کی ذرا سی مقدار اس شاعری میں بھی اتر آئی ہے ۔ یہ شاعری آپ کو مزہ تو دے گی ہی ،ساتھ میں حیران بھی کرے گی کہ شراب جو بظاہر بے خودی اور سرور بخشتی ہے، شاعری میں کس طرح معنی کی ایک لامحدود کائنات کا استعارہ بن گئی ہے ۔

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

منور رانا

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ

جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے

فراق گورکھپوری

کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی

آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی

ندا فاضلی

زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر

یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو

نامعلوم

اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں

جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

دواکر راہی

بے پئے ہی شراب سے نفرت

یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے

ساحر لدھیانوی

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو

نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

جون ایلیا

اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز

یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے

فرحت شہزاد

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

تشریح

یہ شعر معنی اور تلازمات دونوں کے اعتبار سے دلچسپ ہے۔ شعر میں وہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جنہیں اردو غزل کی روایت کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً زاہدِ شراب، کافر، ایمان۔ مگر معنی کی سطح پر ذوقؔ نے طنزیہ لہجے سے جو بات پیدا کی ہے وہ قاری کو چونکا دیتی ہے۔ شعر میں زاہد کی مناسبت سے شراب، کافر کی مناسبت سے ایمان کے علاوہ پینے، پانی اور بہنے سے جو کیفیت پیدا ہوئی ہے وہ اپنے اندر میں ایک شاعرانہ کمال ہے۔ زاہد اردو غزل کی روایت میں ان کرداروں میں سے ایک ہے جن پر شاعروں نے کھل کر طنز کئے ہیں۔

شعر ی کردار زاہد سے سوال پوچھتا ہے کہ شراب پینے سے آدمی کافر کیسے ہوسکتا ہے، کیا ایمان اس قدر کمزور چیز ہوتی ہے کہ ذرا سے پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ اس شعر کے بین السطور میں جو زاہد پر طنز کیا گیا ہے وہ ’’ڈیڑھ چلو‘‘ پانی سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی میں نے تو ذرا سی شراب پی لی ہے اور تم نے مجھ پر کافر ہونے کا فتویٰ صادر کیا۔ کیا تمہاری نظر میں ایمان اس قدر کمزور شےہے کہ ذرا سی شراب پینے سے ختم ہوتا ہے۔

شفق سوپوری

شیخ ابراہیم ذوقؔ

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

احمد فراز

بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدمؔ

بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

عبد الحمید عدم

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

فیض احمد فیض

شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

جلالؔ لکھنوی

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند

مجھ کو تری نگاہ کا الزام چاہیئے

عبد الحمید عدم

پیتا ہوں جتنی اتنی ہی بڑھتی ہے تشنگی

ساقی نے جیسے پیاس ملا دی شراب میں

نامعلوم

لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد

ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں

داغؔ دہلوی

ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح

اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی

شکیل بدایونی

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں

پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

نوح ناروی

اے ذوقؔ دیکھ دختر رز کو نہ منہ لگا

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

شیخ ابراہیم ذوقؔ

شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے

یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا

تشریح

جبیں یعنی ماتھا۔ جبیں پر شکن ڈالنے کے کئی معنی ہیں۔ جیسے غصہ کرنا، کسی سے روکھائی سے پیش آنا وغیرہ۔ شاعر اپنے ساقی یعنی محبوب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ شراب ایک مسکراتی ہوئی چیز ہے اور اسے کسی کو دیتے ہوئے ماتھے پر شکن لانا اچھی بات نہیں کیونکہ اگر ساقی ماتھے پر شکن لاکر کسی کو شراب پلاتا ہے تو پھر اس کا اصلی مزہ جاتا رہتا ہے۔ اس لئے ساقی پر لازم ہے کہ وہ دستورِ مے نے نوشی کا لحاظ کرتے ہوئے پلانے والے کو شراب مسکرا کر پلائے۔

شفق سوپوری

عبد الحمید عدم

غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی

پیتا ہوں روز ابر و شب ماہ تاب میں

مرزا غالب

وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی

کاش تھوڑی سی ہم پئے ہوتے

عبد الحمید عدم

کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ

میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا

جگر مراد آبادی

مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے

مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

انور مرزاپوری

خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی

وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے

عرش ملسیانی

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر صدیقی

کسی کی بزم کے حالات نے سمجھا دیا مجھ کو

کہ جب ساقی نہیں اپنا تو مے اپنی نہ جام اپنا

محشر عنایتی

آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی

پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو

مرزا جواں بخت جہاں دار

شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی

توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی

ظہیرؔ دہلوی

سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے

اور جگرؔ کو شراب نے مارا

جگر مراد آبادی

اچھی پی لی خراب پی لی

جیسی پائی شراب پی لی

ریاضؔ خیرآبادی

واعظ بڑا مزا ہو اگر یوں عذاب ہو

دوزخ میں پاؤں ہاتھ میں جام شراب ہو

داغؔ دہلوی

پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب

یہ مزا پاکباز کیا جانیں

داغؔ دہلوی

پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی

دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی

شکیل بدایونی

گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ

یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ

جگر مراد آبادی

اذاں ہو رہی ہے پلا جلد ساقی

عبادت کریں آج مخمور ہو کر

نامعلوم

بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر

پی کے انسان ہوا جاتا ہے

شکیل بدایونی

مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں

گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

مضطر خیرآبادی

زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا

میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی

عبد الحمید عدم

کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں

تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے

شہزاد احمد

اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک

ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے

جگر مراد آبادی

فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ

شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے

مجروح سلطانپوری

مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ

نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل

حفیظ جونپوری

شراب بند ہو ساقی کے بس کی بات نہیں

تمام شہر ہے دو چار دس کی بات نہیں

اسد ملتانی

جام لے کر مجھ سے وہ کہتا ہے اپنے منہ کو پھیر

رو بہ رو یوں تیرے مے پینے سے شرماتے ہیں ہم

غمگین دہلوی

منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر

جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے

بیخود دہلوی

پی کر دو گھونٹ دیکھ زاہد

کیا تجھ سے کہوں شراب کیا ہے

حفیظ جونپوری

واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو

کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی

مرزا غالب

کسی طرح تو گھٹے دل کی بے قراری بھی

چلو وہ چشم نہیں کم سے کم شراب تو ہو

آفتاب حسین
بولیے