Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Faiz Ahmad Faiz's Photo'

فیض احمد فیض

1911 - 1984 | لاہور, پاکستان

سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے

سب سے پسندیدہ اور مقبول پاکستانی شاعروں میں سے ایک ، اپنے انقلابی خیالات کے سبب کئی برس قید میں رہے

فیض احمد فیض کے اشعار

260.1K
Favorite

باعتبار

منت چارہ ساز کون کرے

درد جب جاں نواز ہو جائے

''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر''

چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

جانتا ہے کہ وہ نہ آئیں گے

پھر بھی مصروف انتظار ہے دل

جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی

سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا

وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے

شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت

چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے

میرے نالوں کی گم شدہ آواز

پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں

پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل

ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے

جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے

وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

ساری دنیا سے دور ہو جائے

جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے

جب تجھے یاد کر لیا صبح مہک مہک اٹھی

جب ترا غم جگا لیا رات مچل مچل گئی

گرمئ شوق نظارہ کا اثر تو دیکھو

گل کھلے جاتے ہیں وہ سایۂ تر تو دیکھو

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی

بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

اپنی نظریں بکھیر دے ساقی

مے بہ اندازۂ خمار نہیں

جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی

جہاں سے بزدلی نے جست کی تھی

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم

کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی

غم جہاں ہو رخ یار ہو کہ دست عدو

سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں

ہم لوگ سرخ رو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی

ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن

تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی

دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی

مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے

کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں

ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان و دل

محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری

فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

نہیں شکایت ہجراں کہ اس وسیلے سے

ہم ان سے رشتۂ دل استوار کرتے رہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

تشریح

اس شعر کو اکثر شارحین اور ناقدین نے ترقی پسند فکر کے آئینے میں دیکھا ہے۔ ان کی نظر میں ’’تم‘‘ انقلاب ، شبِ انتظار کشمکش اور استحصال اور تلاش جستجو کی علامت ہے۔ اس اعتبار سے شعر کا مضمون یہ بنتا ہے کہ انقلاب کے کوشاں لوگوں نے استحصالی عناصر کے خلاف ہر چند کی بہت سعی کی مگر ہر دور اپنے ساتھ نئے استحصالی عناصر کو لاتا ہے۔ مگر چونکہ فیض نے اپنی شاعری میں اردو شاعری کی رویت سے بغاوت نہیں کی اور روایتی تلازمات کو ہی برتا ہے اس لئے اس شعر کو اگر ترقی پسند سوچ کے دائرے سے نکال کر بھی دیکھاجائے تو اس میں ایک عاشق اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ نہ تم آئے اور نہ انتظار کی رات گزری۔ اگرچہ دستور یہ ہے کہ ہر رات کی صبح ہوتی ہے مگر صبح کے بار بار آنے کے باوجود انتظار کی رات ختم نہیں ہوئی۔

شفق سوپوری

شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی

شکر ہے زندگی تباہ نہ کی

ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن

یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

تیرے قول و قرار سے پہلے

اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں

تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن

اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

مری چشم تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے

بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں

دل سنبھالے رہو زباں کی طرح

خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے

شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی

چنگ و نے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے

دل نے لے بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے