Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jamal Ehsani's Photo'

جمال احسانی

1951 - 1998 | کراچی, پاکستان

اہم ترین ما بعد جدید پاکستانی شاعروں میں سے ایک، اپنے انفرادی شعری تجربے کے لیے معروف

اہم ترین ما بعد جدید پاکستانی شاعروں میں سے ایک، اپنے انفرادی شعری تجربے کے لیے معروف

جمال احسانی کے اشعار

25.5K
Favorite

باعتبار

یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ

بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں

بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا

وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا

جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو

جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے

خود جسے محنت مشقت سے بناتا ہوں جمالؔ

چھوڑ دیتا ہوں وہ رستہ عام ہو جانے کے بعد

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے

یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

اسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا

بہت اداس ہوئے پھول بیچنے والے

اک سفر میں کوئی دو بار نہیں لٹ سکتا

اب دوبارہ تری چاہت نہیں کی جا سکتی

دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت

سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے

ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں

پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا

کسی بھی وقت بدل سکتا ہے لمحہ کوئی

اس قدر خوش بھی نہ ہو میری پریشانی پر

اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں

وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب

یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے

صبح آتا ہوں یہاں اور شام ہو جانے کے بعد

لوٹ جاتا ہوں میں گھر ناکام ہو جانے کے بعد

ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگا

سر کٹانا ہے تو ہتھیار نہ ڈالے جائیں

کیا کہوں اوبنے لگا ہوں جمالؔ

ایک ہی جیسے صبح و شام سے میں

تھکن بہت تھی مگر سایۂ شجر میں جمالؔ

میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا

ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمالؔ

روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی پر

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

جانتا ہوں مرے قصہ گو نے

اصل قصے کو چھپا رکھا ہے

مجھ کو معلوم ہے میری خاطر

کہیں اک جال بنا رکھا ہے

نہ اجنبی ہے کوئی اور نہ آشنا کوئی

اکیلے پن کی بھی ہوتی ہے انتہا کوئی

سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر

اب تک جو آنکھ تھی ترے در پر لگی ہوئی

اور اب یہ چاہتا ہوں کوئی غم بٹائے مرا

میں اپنی مٹی کبھی آپ ڈھونے والا تھا

جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل

وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا

ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دکھا شاید

وگرنہ کیا میں سر شام سونے والا تھا

ہم ایسے بے ہنروں میں ہے جو سلیقۂ زیست

ترے دیار میں پل بھر قیام سے آیا

بکھر گیا ہے جو موتی پرونے والا تھا

وہ ہو رہا ہے یہاں جو نہ ہونے والا تھا

وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں

ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

جو میرے ذکر پر اب قہقہے لگاتا ہے

بچھڑتے وقت کوئی حال دیکھتا اس کا

میرے ہونے سے نہ ہونا ہے مرا

آگ جلنے سے دھواں آباد ہے

مائیں دروازوں پر ہیں

بارش ہونے والی ہے

اس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمالؔ

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

کون ہے اس رم جھم کے پیچھے چھپا ہوا

یہ آنسو سارے کے سارے کس کے ہیں

مرا کمال کہ میں اس فضا میں زندہ ہوں

دعا نہ ملتے ہوئے اور ہوا نہ ہوتے ہوئے

چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار

میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

کسی کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں اکثر

اکیلے پن میں بڑے دھیان جایا کرتے ہیں

نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں

سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے

جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا ہے میں اس کا کیا کروں

شہر میں پھیلی ہوئی جھوٹی خبر اپنی جگہ

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ

عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے

وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں

چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا

اک آدمی سے ترک مراسم کے بعد اب

کیا اس گلی سے کوئی گزرنا بھی چھوڑ دے

بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے

اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

دو جیون تاراج ہوئے تب پوری ہوئی بات

کیسا پھول کھلا ہے اور کیسی ویرانی میں

دن گزرتے جا رہے ہیں اور ہجوم خوش گماں

منتظر بیٹھا ہے آب و خاک سے بچھڑا ہوا

جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا

نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے

بچ رہا ہوں قبول عام سے میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے