Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یوم مزدور پر شعر

مزدوروں کے احساسات اور ان کی جدوجہد کو زبان دینے والی بہترین شاعری

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

حفیظ جالندھری

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط

اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

تنویر سپرا

میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن

صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے

مجروح سلطانپوری

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

منور رانا

دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں

خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے

منموہن تلخ

سروں پہ اوڑھ کے مزدور دھوپ کی چادر

خود اپنے سر پہ اسے سائباں سمجھنے لگے

شارب مورانوی

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

افضل خان

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

منور رانا

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے

جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

عبید الرحمان

پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا

چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی

ناظر صدیقی

اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ

مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں

عمران عامی

پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی

سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے

شارب مورانوی

میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی

وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ

انور مسعود

تری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری

ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں

عاصم واسطی

دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر

مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے

نشور واحدی

ہم ہیں مزدور ہمیں کون سہارا دے گا

ہم تو مٹ کر بھی سہارا نہیں مانگا کرتے

راہی شہابی

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

علامہ اقبال

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا

طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

علامہ اقبال

کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا

یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

احمد سلمان

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور

ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

وامق جونپوری

اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا

بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

نفس انبالوی

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے

چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے

رضا مورانوی

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں

نامعلوم

عبث محنت ہے کچھ حاصل نہیں پتھر تراشی سے

یہی مضمون تھا فرہاد کے تیشے کی کھٹ کھٹ کا

نظیر اکبرآبادی

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے

رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

منور رانا

مل مالک کے کتے بھی چربیلے ہیں

لیکن مزدوروں کے چہرے پیلے ہیں

تنویر سپرا

انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی

جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں

جمیلؔ مظہری

میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں

مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا

احتشام الحق صدیقی

محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے

یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں

ولاس پنڈت مسافر

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے

جمیلؔ مظہری

تیری تابش سے روشن ہیں گل بھی اور ویرانے بھی

کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند؟

شبنم رومانی

زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا

بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا

رضا مورانوی

خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں

نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا

حیدر علی جعفری

پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن

سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں

علی سردار جعفری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے