Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یوم مزدور پر شعر

مزدوروں کے احساسات اور ان کی جدوجہد کو زبان دینے والی بہترین شاعری

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

علامہ اقبال

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

منور رانا

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

منور رانا

کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا

یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

احمد سلمان

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں

نامعلوم

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

حفیظ جالندھری

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے

رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

منور رانا

محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے

یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں

ولاس پنڈت مسافر

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے

جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

عبید الرحمان

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے

جمیلؔ مظہری

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

افضل خان

پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی

سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے

شارب مورانوی

مل مالک کے کتے بھی چربیلے ہیں

لیکن مزدوروں کے چہرے پیلے ہیں

تنویر سپرا

تیری تابش سے روشن ہیں گل بھی اور ویرانے بھی

کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند؟

شبنم رومانی

میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی

وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ

انور مسعود

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا

طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

علامہ اقبال

پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا

چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی

ناظر صدیقی

اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا

بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

نفس انبالوی

زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا

بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا

رضا مورانوی

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے

چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے

رضا مورانوی

میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں

مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا

احتشام الحق صدیقی

خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں

نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا

حیدر علی جعفری

دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر

مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے

نشور واحدی

سروں پہ اوڑھ کے مزدور دھوپ کی چادر

خود اپنے سر پہ اسے سائباں سمجھنے لگے

شارب مورانوی

میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن

صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے

مجروح سلطانپوری

تری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری

ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں

عاصم واسطی

ہم ہیں مزدور ہمیں کون سہارا دے گا

ہم تو مٹ کر بھی سہارا نہیں مانگا کرتے

راہی شہابی

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط

اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

تنویر سپرا

انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی

جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں

جمیلؔ مظہری

اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ

مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں

عمران عامی

پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن

سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں

علی سردار جعفری

عبث محنت ہے کچھ حاصل نہیں پتھر تراشی سے

یہی مضمون تھا فرہاد کے تیشے کی کھٹ کھٹ کا

نظیر اکبرآبادی

دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں

خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے

منموہن تلخ

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور

ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

وامق جونپوری
بولیے