Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Altaf Hussain Hali's Photo'

الطاف حسین حالی

1837 - 1914 | دلی, انڈیا

اردو تنقید کے بانیوں میں شامل۔ ممتاز قبل از جدید شاعر۔ مرزا غالب کے سوانح ’یاد گار غالب‘ لکھنے کےلئے مشہور

اردو تنقید کے بانیوں میں شامل۔ ممتاز قبل از جدید شاعر۔ مرزا غالب کے سوانح ’یاد گار غالب‘ لکھنے کےلئے مشہور

الطاف حسین حالی کے اشعار

19.9K
Favorite

باعتبار

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی

دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

جانور آدمی فرشتہ خدا

آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

فراغت سے دنیا میں ہر دم نہ بیٹھو

اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ

عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید

خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

ہم نے اول سے پڑھی ہے یہ کتاب آخر تک

ہم سے پوچھے کوئی ہوتی ہے محبت کیسی

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا

وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط

الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر

دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری

ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری

آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

کہتے ہیں جس کو جنت وہ اک جھلک ہے تیری

سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں

حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے

غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میرؔ کا

چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو

نیند پھر رات بھر نہ آئی آج

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت

ہم کو طاقت نہیں جدائی کی

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ

نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت

نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

اس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا

بھڑک اٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا

منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے

تم میں عادت ہے خود نمائی کی

راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم

دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم

قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ

عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں

ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

خاکساری اپنی کام آئی بہت

ہم روز وداع ان سے ہنس ہنس کے ہوئے رخصت

رونا تھا بہت ہم کو روتے بھی تو کیا ہوتا

نظر آتی نہیں اب دل میں تمنا کوئی

بعد مدت کے تمنا مری بر آئی ہے

بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ

اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں

اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو

تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے

آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم

سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم

مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت

کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے

دکھانا پڑے گا مجھے زخم دل

اگر تیر اس کا خطا ہو گیا

قلق اور دل میں سوا ہو گیا

دلاسا تمہارا بلا ہو گیا

دھوم تھی اپنی پارسائی کی

کی بھی اور کس سے آشنائی کی

یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا

ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم

ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

رونا ہے یہ کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاں

طعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھا

تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب

بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد

گل و گلچیں کا گلہ بلبل خوش لہجہ نہ کر

تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث

ہر سمت گرد ناقۂ لیلیٰ بلند ہے

پہنچے جو حوصلہ ہو کسی شہسوار کا

کچھ ہنسی کھیل سنبھلنا غم ہجراں میں نہیں

چاک دل میں ہے مرے جو کہ گریباں میں نہیں

یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا

ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے