Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Altaf Hussain Hali's Photo'

الطاف حسین حالی

1837 - 1914 | دلی, انڈیا

اردو تنقید کے بانیوں میں شامل۔ ممتاز قبل از جدید شاعر۔ مرزا غالب کے سوانح ’یاد گار غالب‘ لکھنے کےلئے مشہور

اردو تنقید کے بانیوں میں شامل۔ ممتاز قبل از جدید شاعر۔ مرزا غالب کے سوانح ’یاد گار غالب‘ لکھنے کےلئے مشہور

الطاف حسین حالی کے اشعار

21.3K
Favorite

باعتبار

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

گل و گلچیں کا گلہ بلبل خوش لہجہ نہ کر

تو گرفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث

کچھ ہنسی کھیل سنبھلنا غم ہجراں میں نہیں

چاک دل میں ہے مرے جو کہ گریباں میں نہیں

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ

نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

ہم نے اول سے پڑھی ہے یہ کتاب آخر تک

ہم سے پوچھے کوئی ہوتی ہے محبت کیسی

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی

دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

اس نے اچھا ہی کیا حال نہ پوچھا دل کا

بھڑک اٹھتا تو یہ شعلہ نہ دبایا جاتا

اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو

تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے

عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید

خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب

بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد

اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت

نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ

عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں

رونا ہے یہ کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاں

طعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھا

فراغت سے دنیا میں ہر دم نہ بیٹھو

اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ

یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا

ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے

یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا

ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم

سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا

منہ کہاں تک چھپاؤ گے ہم سے

تم میں عادت ہے خود نمائی کی

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

دکھانا پڑے گا مجھے زخم دل

اگر تیر اس کا خطا ہو گیا

راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم

دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم

ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا

خاکساری اپنی کام آئی بہت

نظر آتی نہیں اب دل میں تمنا کوئی

بعد مدت کے تمنا مری بر آئی ہے

بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ

اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں

ہم روز وداع ان سے ہنس ہنس کے ہوئے رخصت

رونا تھا بہت ہم کو روتے بھی تو کیا ہوتا

آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا

وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر

دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری

ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری

ہر سمت گرد ناقۂ لیلیٰ بلند ہے

پہنچے جو حوصلہ ہو کسی شہسوار کا

دھوم تھی اپنی پارسائی کی

کی بھی اور کس سے آشنائی کی

صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

کہتے ہیں جس کو جنت وہ اک جھلک ہے تیری

سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں

چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو

نیند پھر رات بھر نہ آئی آج

جانور آدمی فرشتہ خدا

آدمی کی ہیں سیکڑوں قسمیں

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم

ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے

غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میرؔ کا

قلق اور دل میں سوا ہو گیا

دلاسا تمہارا بلا ہو گیا

کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت

ہم کو طاقت نہیں جدائی کی

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط

الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت

کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے

Recitation

بولیے