Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Parveen Shakir's Photo'

پروین شاکر

1952 - 1994 | کراچی, پاکستان

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

پروین شاکر کے اشعار

124.3K
Favorite

باعتبار

صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا

ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں

جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب

اس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی

رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر

گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں

الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر

گھر آپ ہی جگمگا اٹھے گا

دہلیز پہ اک قدم بہت ہے

میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں

شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں

اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں

اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا

خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار

میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن

وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے

دھیمے سروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑئیے

ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے

مقتل وقت میں خاموش گواہی کی طرح

دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح

گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو

کسی نے صحن میں مہندی کی باڑ اگائی ہو

رستہ میں مل گیا تو شریک سفر نہ جان

جو چھاؤں مہرباں ہو اسے اپنا گھر نہ جان

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا

خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

یوں دیکھنا اس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے

انعام تو اچھا تھا مگر شرط کڑی تھی

ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو

کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو

تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار

اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو

اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی

جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا

بارہا تیرا انتظار کیا

اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح

پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے

پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن

بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا

رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے

بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ

حیرت ہے مجھے آج کدھر بھول پڑے وہ

آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں

اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

شب وہی لیکن ستارہ اور ہے

اب سفر کا استعارہ اور ہے

جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا

تیر سینے میں اتارا اور ہے

ہارنے میں اک انا کی بات تھی

جیت جانے میں خسارا اور ہے

قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا

کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں

یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو

گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا

مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

زندگی میری تھی لیکن اب تو

تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا

فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے

شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد

کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے

ابر برسے تو عنایت اس کی

شاخ تو صرف دعا کرتی ہے

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر

گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک

اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی

یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا

یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں

میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا

وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے

پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے

جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے

چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی

انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن

تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا

تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے