Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Parveen Shakir's Photo'

پروین شاکر

1952 - 1994 | کراچی, پاکستان

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

پروین شاکر کے اشعار

162.8K
Favorite

باعتبار

رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر

گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں

الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر

میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ

مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے

چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے

کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل

بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا

کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے

پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے

زندگی میری تھی لیکن اب تو

تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں

اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں

صرف اس تکبر میں اس نے مجھ کو جیتا تھا

ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نارساؤں میں

جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ

اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

تھک گیا ہے دل وحشی مرا فریاد سے بھی

جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد

کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے

مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا

فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے

کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں

میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی

وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں

یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا

یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی

خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں

میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا

وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں

وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ

حیرت ہے مجھے آج کدھر بھول پڑے وہ

رات کے شاید ایک بجے ہیں

سوتا ہوگا میرا چاند

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی

تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے

بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر

گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں

اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر

جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں

اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں

بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک

اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن

بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا

بارہا تیرا انتظار کیا

اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح

پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے

پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

رائے پہلے سے بنا لی تو نے

دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے

اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی

جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا

ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے

زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی

بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا

Recitation

بولیے