Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Parveen Shakir's Photo'

پروین شاکر

1952 - 1994 | کراچی, پاکستان

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

پروین شاکر کے اشعار

141.9K
Favorite

باعتبار

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی

اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ

حیرت ہے مجھے آج کدھر بھول پڑے وہ

رات کے شاید ایک بجے ہیں

سوتا ہوگا میرا چاند

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی

تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے

بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر

گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں

اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر

جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں

اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا

میں دل میں روؤں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں

بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک

اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی

جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں

بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن

بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا

بارہا تیرا انتظار کیا

اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح

پاس جب تک وہ رہے درد تھما رہتا ہے

پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

رائے پہلے سے بنا لی تو نے

دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے

اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی

جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا

ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے

زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا

عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی

بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا

گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا

مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا

کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر

ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو

کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو

پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم

وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے

میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی

وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار

اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو

نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے

کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی

اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لئے

رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا

زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی

انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے

بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی

ابر برسے تو عنایت اس کی

شاخ تو صرف دعا کرتی ہے

یوں دیکھنا اس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے

انعام تو اچھا تھا مگر شرط کڑی تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے

اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا

خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں

دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

شب وہی لیکن ستارہ اور ہے

اب سفر کا استعارہ اور ہے

رستہ میں مل گیا تو شریک سفر نہ جان

جو چھاؤں مہرباں ہو اسے اپنا گھر نہ جان

اتنے گھنے بادل کے پیچھے

کتنا تنہا ہوگا چاند

قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے