Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Iqbal Sajid's Photo'

اقبال ساجد

1932 - 1988 | لاہور, پاکستان

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

اقبال ساجد کے اشعار

34.7K
Favorite

باعتبار

مارا کسی نے سنگ تو ٹھوکر لگی مجھے

دیکھا تو آسماں تھا زمیں پر پڑا ہوا

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک

خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

مجھ پہ پتھر پھینکنے والوں کو تیرے شہر میں

نرم و نازک ہاتھ بھی دیتے ہیں پتھر توڑ کر

روئے ہوئے بھی ان کو کئی سال ہو گئے

آنکھوں میں آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوئی

دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا

اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا

مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن

اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا

سزا تو ملنا تھی مجھ کو برہنہ لفظوں کی

زباں کے ساتھ لبوں کو رفو بھی ہونا تھا

پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر

مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے

اس نے بھی کئی روز سے خواہش نہیں اوڑھی

میں نے بھی کئی دن سے ارادہ نہیں پہنا

ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی

میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی

میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر

آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں

میں آئینہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا

اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی

جیسے ہر چہرے کی آنکھیں سر کے پیچھے آ لگیں

سب کے سب الٹے ہی قدموں سے سفر کرنے لگے

اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی

پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا

وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا

اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں

بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق

لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے

پیار کرنے بھی نہ پایا تھا کہ رسوائی ملی

جرم سے پہلے ہی مجھ کو سنگ خمیازہ لگا

ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر

ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے

مسلسل جاگنے کے بعد خواہش روٹھ جاتی ہے

چلن سیکھا ہے بچے کی طرح اس نے مچلنے کا

بگولہ بن کے سمندر میں خاک اڑانا تھا

کہ لہر لہر مجھے تند خو بھی ہونا تھا

وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا

کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا

پڑھتے پڑھتے تھک گئے سب لوگ تحریریں مری

لکھتے لکھتے شہر کی دیوار کالی ہو گئی

موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب

پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی

کٹ گیا جسم مگر سائے تو محفوظ رہے

میرا شیرازہ بکھر کر بھی مثالی نکلا

مرے ہی حرف دکھاتے تھے میری شکل مجھے

یہ اشتہار مرے روبرو بھی ہونا تھا

ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ

آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے

یہ ترے اشعار تیری معنوی اولاد ہیں

اپنے بچے بیچنا اقبال ساجدؔ چھوڑ دے

فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی

تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا

درویش نظر آتا تھا ہر حال میں لیکن

ساجدؔ نے لباس اتنا بھی سادہ نہیں پہنا

اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی

جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی

سورج ہوں چمکنے کا بھی حق چاہئے مجھ کو

میں کہر میں لپٹا ہوں شفق چاہئے مجھ کو

میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رسوا

اس گل نے مگر کام پسینے سے نکالا

اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار

لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی

ملے مجھے بھی اگر کوئی شام فرصت کی

میں کیا ہوں کون ہوں سوچوں گا اپنے بارے میں

پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں

اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے