Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Iqbal Sajid's Photo'

اقبال ساجد

1932 - 1988 | لاہور, پاکستان

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

اقبال ساجد کے اشعار

34.7K
Favorite

باعتبار

اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی

جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا

کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا

پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر

مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے

پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں

اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا

میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر

آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں

ملے مجھے بھی اگر کوئی شام فرصت کی

میں کیا ہوں کون ہوں سوچوں گا اپنے بارے میں

میں آئینہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا

اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی

ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ

آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے

اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار

لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی

اس نے بھی کئی روز سے خواہش نہیں اوڑھی

میں نے بھی کئی دن سے ارادہ نہیں پہنا

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک

خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب

پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی

مارا کسی نے سنگ تو ٹھوکر لگی مجھے

دیکھا تو آسماں تھا زمیں پر پڑا ہوا

ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی

میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی

پڑھتے پڑھتے تھک گئے سب لوگ تحریریں مری

لکھتے لکھتے شہر کی دیوار کالی ہو گئی

سورج ہوں چمکنے کا بھی حق چاہئے مجھ کو

میں کہر میں لپٹا ہوں شفق چاہئے مجھ کو

وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا

اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں

روئے ہوئے بھی ان کو کئی سال ہو گئے

آنکھوں میں آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوئی

ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر

ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے

مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن

اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا

پیار کرنے بھی نہ پایا تھا کہ رسوائی ملی

جرم سے پہلے ہی مجھ کو سنگ خمیازہ لگا

اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی

پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا

یہ ترے اشعار تیری معنوی اولاد ہیں

اپنے بچے بیچنا اقبال ساجدؔ چھوڑ دے

میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رسوا

اس گل نے مگر کام پسینے سے نکالا

درویش نظر آتا تھا ہر حال میں لیکن

ساجدؔ نے لباس اتنا بھی سادہ نہیں پہنا

بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق

لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے

مسلسل جاگنے کے بعد خواہش روٹھ جاتی ہے

چلن سیکھا ہے بچے کی طرح اس نے مچلنے کا

سزا تو ملنا تھی مجھ کو برہنہ لفظوں کی

زباں کے ساتھ لبوں کو رفو بھی ہونا تھا

جیسے ہر چہرے کی آنکھیں سر کے پیچھے آ لگیں

سب کے سب الٹے ہی قدموں سے سفر کرنے لگے

دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا

اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا

مجھ پہ پتھر پھینکنے والوں کو تیرے شہر میں

نرم و نازک ہاتھ بھی دیتے ہیں پتھر توڑ کر

کٹ گیا جسم مگر سائے تو محفوظ رہے

میرا شیرازہ بکھر کر بھی مثالی نکلا

مرے ہی حرف دکھاتے تھے میری شکل مجھے

یہ اشتہار مرے روبرو بھی ہونا تھا

بگولہ بن کے سمندر میں خاک اڑانا تھا

کہ لہر لہر مجھے تند خو بھی ہونا تھا

فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی

تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے