Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Mushtaq's Photo'

پاکستان کے معروف ترین اور محترم جدید شاعروں میں سے ایک، اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف

پاکستان کے معروف ترین اور محترم جدید شاعروں میں سے ایک، اپنے نوکلاسیکی آہنگ کے لیے معروف

احمد مشتاق کی ٹاپ ٢٠ شاعری

تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے

لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا

تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے

تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے

عشق میں کون بتا سکتا ہے

کس نے کس سے سچ بولا ہے

پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے

یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے

اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

اب اس کی شکل بھی مشکل سے یاد آتی ہے

وہ جس کے نام سے ہوتے نہ تھے جدا مرے لب

نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے

ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں

اک رات چاندنی مرے بستر پہ آئی تھی

میں نے تراش کر ترا چہرہ بنا دیا

اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے

یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں

کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا

کھویا ہے کچھ ضرور جو اس کی تلاش میں

ہر چیز کو ادھر سے ادھر کر رہے ہیں ہم

ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے

وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو

تشریح

یہ شعر احمد مشتاق کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ شاعر نے الفاظ سے جو کیفیت پیدا کی ہے اس کا جواب نہیں۔ اس میں سوچ کی مناسبت سے گم اور دونوں کی رعایت سے دھیان نے مضمون میں جان ڈال دی ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ملنے جاتے ہیں مگر ان کا محبوب کسی سوچ میں گم بیٹھا ہے۔ چنانچہ شاعر اپنے محبوب کو اس حال میں دیکھ کر واپس چلے آتے ہیں کیونکہ انہیں محبوب کا اپنے دھیان میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔ اس شعر میں عشق کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی عام مزاج کا عاشق ہوتا تو اپنے محبوب سے وصل کا موقع اس بات پر نہیں گنواتا کہ اس کا محبوب اپنے دھیان میں گم ہے۔ مگر یہاں عاشق کو اپنے محبوب کی یہ ادا بھی پسند آتی ہے اور وہ اپنے محبوب کو دھیان کی حالت میں چھوڑ کر واپس چلا آتا۔

شفق سوپوری

تشریح

یہ شعر احمد مشتاق کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ شاعر نے الفاظ سے جو کیفیت پیدا کی ہے اس کا جواب نہیں۔ اس میں سوچ کی مناسبت سے گم اور دونوں کی رعایت سے دھیان نے مضمون میں جان ڈال دی ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ملنے جاتے ہیں مگر ان کا محبوب کسی سوچ میں گم بیٹھا ہے۔ چنانچہ شاعر اپنے محبوب کو اس حال میں دیکھ کر واپس چلے آتے ہیں کیونکہ انہیں محبوب کا اپنے دھیان میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔ اس شعر میں عشق کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی عام مزاج کا عاشق ہوتا تو اپنے محبوب سے وصل کا موقع اس بات پر نہیں گنواتا کہ اس کا محبوب اپنے دھیان میں گم ہے۔ مگر یہاں عاشق کو اپنے محبوب کی یہ ادا بھی پسند آتی ہے اور وہ اپنے محبوب کو دھیان کی حالت میں چھوڑ کر واپس چلا آتا۔

شفق سوپوری

موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی

زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں

کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی

مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا

وہی گلشن ہے لیکن وقت کی پرواز تو دیکھو

کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں

سنگ اٹھانا تو بڑی بات ہے اب شہر کے لوگ

آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے دیوانے کو

ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو

چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا

خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے