Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وقت پر اشعار

’’وقت وقت کی بات ہوتی

ہے‘‘ یہ محاورہ ہم سب نے سنا ہوگا۔ جی ہاں وقت کا سفاک بہاؤ ہی زندگی کو نت نئی صورتوں سے دوچار کرتا ہے۔ کبھی صورت خوشگوار ہوتی ہے اور کبھی تکلیف دہ۔ ہم سب وقت کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تو آئیے وقت کو ذرا کچھ اور گہرائی میں اتر کر دیکھیں اور سمجھیں۔ شاعری کا یہ انتخاب وقت کی ایک گہری تخلیقی تفہیم کا درجہ رکھتا ہے۔

کل ہم آئینے میں رخ کی جھریاں دیکھا کیے

کاروان عمر رفتہ کا نشاں دیکھا کیے

صفی لکھنوی

کوئی ٹھہرتا نہیں یوں تو وقت کے آگے

مگر وہ زخم کہ جس کا نشاں نہیں جاتا

فرخ جعفری

وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا

میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا

حفیظ میرٹھی

کتنی بھی پیاری ہو ہر اک شے سے جی اکتا جاتا ہے

وقت کے ساتھ تو چمکیلے زیور بھی کالے پڑ جاتے ہیں

مکیش عالم

سب آسان ہوا جاتا ہے

مشکل وقت تو اب آیا ہے

شارق کیفی

تو مجھے بنتے بگڑتے ہوئے اب غور سے دیکھ

وقت کل چاک پہ رہنے دے نہ رہنے دے مجھے

خورشید رضوی

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

منشی امیر اللہ تسلیم

یہ محبت کا فسانہ بھی بدل جائے گا

وقت کے ساتھ زمانہ بھی بدل جائے گا

اظہر لکھنوی

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے

وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

پروین شاکر

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

جگر مراد آبادی

سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں

کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا

ندا فاضلی

اس وقت کا حساب کیا دوں

جو تیرے بغیر کٹ گیا ہے

احمد ندیم قاسمی

وقت کی وحشی ہوا کیا کیا اڑا کر لے گئی

یہ بھی کیا کم ہے کہ کچھ اس کی کمی موجود ہے

آفتاب حسین

وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ

آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

منیر نیازی

جب آ جاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر

تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے

عبرت مچھلی شہری

دن گزرتے جا رہے ہیں اور ہجوم خوش گماں

منتظر بیٹھا ہے آب و خاک سے بچھڑا ہوا

جمال احسانی

وقت جب کروٹیں بدلتا ہے

فتنۂ حشر ساتھ چلتا ہے

انور صابری

ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے

پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے

خورشید طلب

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے

اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

احمد مشتاق

تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے

جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا

تلوک چند محروم

کہیں یہ اپنی محبت کی انتہا تو نہیں

بہت دنوں سے تری یاد بھی نہیں آئی

احمد راہی

ہے یہ وجود کی نمود اپنی نفس نفس گریز

وقت کی ساری بستیاں، اپنی ہزیمتوں میں ہیں

جون ایلیا

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر

عادت اس کی بھی آدمی سی ہے

گلزار

عمر بھر ملنے نہیں دیتی ہیں اب تو رنجشیں

وقت ہم سے روٹھ جانے کی ادا تک لے گیا

فصیح اکمل

ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے

بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے

وحید اختر

ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد

وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

شکیل بدایونی

وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا

درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے

صدا انبالوی

شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم

دن گزرتے ہیں ترے خواب کے آثار میں گم

سعید احمد

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

میر حسن

جیسے دو ملکوں کو اک سرحد الگ کرتی ہوئی

وقت نے خط ایسا کھینچا میرے اس کے درمیاں

محسن زیدی

گزرنے ہی نہ دی وہ رات میں نے

گھڑی پر رکھ دیا تھا ہاتھ میں نے

شہزاد احمد

ہم ایک شہر میں تھے اک ندی کی دوری پر

اور اس ندی میں کوئی اور وقت بہتا تھا

احتشام علی

اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک

اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے

اختر ہوشیارپوری

وقت برباد کرنے والوں کو

وقت برباد کر کے چھوڑے گا

دواکر راہی

اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو

پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو

ابن انشا

گیا جو ہاتھ سے وہ وقت پھر نہیں آتا

کہاں امید کہ پھر دن پھریں ہمارے اب

حفیظ جونپوری

وقت فرصت دے تو مل بیٹھیں کہیں باہم دو دم

ایک مدت سے دلوں میں حسرت طرفین ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم

اپنا گھر بھول گئے ان کی گلی بھول گئے

جون ایلیا

وقت کو بس گزار لینا ہی

دوستو کوئی زندگانی ہے

دواکر راہی

گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی

وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا

اختر ہوشیارپوری

زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا

ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں

اصغر گونڈوی

کیسے مانوں کہ زمانے کی خبر رکھتی ہے

گردش وقت تو بس مجھ پہ نظر رکھتی ہے

طاہر فراز

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

ناصر کاظمی

بچوں کے ساتھ آج اسے دیکھا تو دکھ ہوا

ان میں سے کوئی ایک بھی ماں پر نہیں گیا

حسن عباس رضا

وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے

جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا

فضا ابن فیضی

بے کار گیا بن میں سونا مرا صدیوں کا

اس شہر میں تو اب تک سکہ بھی نہیں بدلا

غلام محمد قاصر

یہ نہ سوچو کل کیا ہو

کون کہے اس پل کیا ہو

مینا کماری ناز

وقت اب دسترس میں ہے اخترؔ

اب تو میں جس جہان تک ہو آؤں

اختر عثمان

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

قابل اجمیری

تم چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو

پاؤں رکتے نہیں زمانے کے

ابو المجاہد زاہد

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے