Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھوپ پر اشعار

شاعری میں کوئی لفظ کسی

ایک خاص تصورسے بندھ کرنہیں رہتا۔ ہرتخلیقی ذہن اپنے لفظوں اوراپنے اظہاری وسیلوں کا ایک الگ تناظراورسیاق قائم کرتا ہے۔ یہ بات ہم نےاس لئےکہی آپ دیکھیں گےکہ دھوپ اوردوپہرکے لفظ کتنے متنوع معنویاتی زاویے رکھتے ہیں ۔ یہ زندگی کی سختی اورشدت کی علامت بھی ہیں اوراس کےبرعکس بھی۔

دھوپ نے گزارش کی

ایک بوند بارش کی

محمد علوی

دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

حسرتؔ موہانی

پھر یاد بہت آئے گی زلفوں کی گھنی شام

جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہ ملے گا

بشیر بدر

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

شکیب جلالی

یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی

کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ

اطہر نفیس

ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے

یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں

خوشبیر سنگھ شادؔ

میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں

کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

احمد مشتاق

وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا

لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح

مصور سبزواری

کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی

دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

احمد مشتاق

علویؔ یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا

سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں

محمد علوی

کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے

اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں

اختر ہوشیارپوری

ہم فقیروں کا پیرہن ہے دھوپ

اور یہ رات اپنی چادر ہے

عابد ودود

اس کو بھی میری طرح اپنی وفا پر تھا یقیں

وہ بھی شاید اسی دھوکے میں ملا تھا مجھ کو

بھارت بھوشن پنت

یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے کیا ہے

یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے

حسیب سوز

نقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے

وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے

ماہر القادری

ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو

چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

احمد مشتاق

جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو

ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ

احمد مشتاق

مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے

بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے

فہمی بدایونی

سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو

ناصر کاظمی

اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں

ہیں گل کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے

ساغر صدیقی

کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے

درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں

منظور ہاشمی

نیند ٹوٹی ہے تو احساس زیاں بھی جاگا

دھوپ دیوار سے آنگن میں اتر آئی ہے

سرشار صدیقی

بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ

چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا

احمد ضیا

دھوپ بولی کہ میں آبائی وطن ہوں تیرا

میں نے پھر سایۂ دیوار کو زحمت نہیں دی

فرحت احساس

دیوار ان کے گھر کی مری دھوپ لے گئی

یہ بات بھولنے میں زمانہ لگا مجھے

ہوش جونپوری

اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے

چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے

حمایت علی شاعر

کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی

کس طرف کون سی منزلوں میں گئی

کشور ناہید

کس نے صحرا میں مرے واسطے رکھی ہے یہ چھاؤں

دھوپ روکے ہے مرا چاہنے والا کیسا

زیب غوری

دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا

سایۂ دیوار بھی دیوار سے

بہرام طارق

کمرے میں آ کے بیٹھ گئی دھوپ میز پر

بچوں نے کھلکھلا کے مجھے بھی جگا دیا

فضل تابش

وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں

میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں

اکبر معصوم

شاخ پر شب کی لگے اس چاند میں ہے دھوپ جو

وہ مری آنکھوں کی ہے سو وہ ثمر میرا بھی ہے

سوپنل تیواری

دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل

وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

ہوش ترمذی

میں بارشوں میں بہت بھیگتا رہا عابدؔ

سلگتی دھوپ میں اک چھت بہت ضروری ہے

عابد ودود

تاریکیوں نے خود کو ملایا ہے دھوپ میں

سایہ جو شام کا نظر آیا ہے دھوپ میں

طاہر فراز

زاویہ دھوپ نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ ہم

سائے کو جسم کی جنبش سے جدا دیکھتے ہیں

عاصم واسطی

وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے

دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

خالدہ عظمی

اس زاویے سے دیکھیے آئینۂ حیات

جس زاویے سے میں نے لگایا ہے دھوپ میں

طاہر فراز

ہمارے منہ پہ اس نے آئنے سے دھوپ تک پھینکی

ابھی تک ہم سمجھ کر اس کو بچہ چھوڑ دیتے ہیں

محمد اعظم

پانی نے جسے دھوپ کی مٹی سے بنایا

وہ دائرہ ربط بگڑنے کے لیے تھا

حنیف ترین

ہم ترے سائے میں کچھ دیر ٹھہرتے کیسے

ہم کو جب دھوپ سے وحشت نہیں کرنی آئی

عابدہ کرامت

دھوپ مجھ کو جو لیے پھرتی ہے سائے سائے

ہے تو آوارہ مگر ذہن میں گھر رکھتی ہے

طاہر فراز
بولیے