الوداع
کسی کو رخصت کرتے ہوئے ہم جن کیفیتوں سے گزرتے ہیں انہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا اظہار اور انہیں زبان دینا ایک مشکل امر ہے، صرف ایک تخلیقی اظہار ہی ان کیفیتوں کی لفظی تجسیم کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ ’’الوداع‘‘ کے لفظ کے تحت ہم نے جو اشعار جمع کئے ہیں وہ الوداعی کیفیات کے انہیں نامعلوم علاقوں کی سیر ہیں ۔
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا
مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے
جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
-
موضوعات : جدائیاور 1 مزید
تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ
ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں
اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
اسے جانے کی جلدی تھی سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا وہاں تک چھوڑ آیا ہوں
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا
جادہ جادہ چھوڑ جاؤ اپنی یادوں کے نقوش
آنے والے کارواں کے رہنما بن کر چلو
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
ایک دن کہنا ہی تھا اک دوسرے کو الوداع
آخرش سالمؔ جدا اک بار تو ہونا ہی تھا
جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے
کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر
ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی
یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم
وقت رخصت تری آنکھوں کا وہ جھک سا جانا
اک مسافر کے لیے زاد سفر ہے اے دوست
اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو
برق کیا شرارہ کیا رنگ کیا نظارہ کیا
ہر دئے کی مٹی میں روشنی تمہاری ہے
لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے
اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے
آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع
اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی