Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الوداع پر اشعار

کسی کو رخصت کرتے ہوئے

ہم جن کیفیتوں سے گزرتے ہیں انہیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا اظہار اور انہیں زبان دینا ایک مشکل امر ہے، صرف ایک تخلیقی اظہار ہی ان کیفیتوں کی لفظی تجسیم کا متحمل ہوسکتا ہے ۔ ’’الوداع‘‘ کے لفظ کے تحت ہم نے جو اشعار جمع کئے ہیں وہ الوداعی کیفیات کے انہیں نامعلوم علاقوں کی سیر ہیں ۔

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

جون ایلیا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میر تقی میر

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی

دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی

شکیل بدایونی

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا

جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا

عبید اللہ علیم

اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا

سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا

ندا فاضلی

تمہیں ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا

مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے لائے گا

بشیر بدر

جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے

جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا

جلیل مانک پوری

اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا

مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا

بشیر بدر

چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک

لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے

شہزاد احمد

عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل

کہ وہ بھی اٹھ کے گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی

سحر انصاری

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے

تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل

ناصر کاظمی

اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی

رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

جون ایلیا

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے

تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

بشیر بدر

ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی

یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم

نعمان شوق

تم سنو یا نہ سنو ہاتھ بڑھاؤ نہ بڑھاؤ

ڈوبتے ڈوبتے اک بار پکاریں گے تمہیں

عرفان صدیقی

یہ ایک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم

یہاں سے تیرے مرے راستے بدلتے ہیں

بشیر بدر

اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے

جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے

معین شاداب

گونجتے رہتے ہیں الفاظ مرے کانوں میں

تو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ

نامعلوم

اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی

دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو

محمد علوی

اسے جانے کی جلدی تھی سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں

جہاں تک چھوڑ سکتا تھا وہاں تک چھوڑ آیا ہوں

نامعلوم

جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی

تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

اسلم انصاری

کلیجہ رہ گیا اس وقت پھٹ کر

کہا جب الوداع اس نے پلٹ کر

پون کمار

میں جانتا ہوں مرے بعد خوب روئے گا

روانہ کر تو رہا ہے وہ ہنستے ہنستے مجھے

امین شیخ

تم اسی موڑ پر ہمیں ملنا

لوٹ کر ہم ضرور آئیں گے

نظر ایٹوی

دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا

اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم

احمد مشتاق

اب کے جاتے ہوئے اس طرح کیا اس نے سلام

ڈوبنے والا کوئی ہاتھ اٹھائے جیسے

نامعلوم

تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی

اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے

پروین شاکر

وقت رخصت الوداع کا لفظ کہنے کے لیے

وہ ترے سوکھے لبوں کا تھرتھرانا یاد ہے

نامعلوم

ہم نے مانا اک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا

لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا

اختر سعید خان

ایک دن کہنا ہی تھا اک دوسرے کو الوداع

آخرش سالمؔ جدا اک بار تو ہونا ہی تھا

سالم شجاع انصاری

جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے

کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر

منظر لکھنوی

وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں

پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی

جادہ جادہ چھوڑ جاؤ اپنی یادوں کے نقوش

آنے والے کارواں کے رہنما بن کر چلو

عزیز بگھروی

کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شام فراق

ہم جو تیرے ناز اٹھانے کے لیے موجود ہیں

ثروت حسین

وقت رخصت تری آنکھوں کا وہ جھک سا جانا

اک مسافر کے لیے زاد سفر ہے اے دوست

نامعلوم

یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر

اس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا

نوشی گیلانی

یہ گھر مرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ

اللہ نگہبان نشیمن کا خدا حافظ

نامعلوم

آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع

اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی

پروین ام مشتاق

آئی ہوگی تو موت آئے گی

تم تو جاؤ مرا خدا حافظ

ناطق گلاوٹھی

لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل اجالوں سے

اسے محفل سے اس کی الوداع کہہ کر نکل آئے

پروندر شوخ

برق کیا شرارہ کیا رنگ کیا نظارہ کیا

ہر دئے کی مٹی میں روشنی تمہاری ہے

نامعلوم

اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو

کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو

شبنم شکیل

جاتے جاتے ان کا رکنا اور مڑ کر دیکھنا

جاگ اٹھا آہ میرا درد تنہائی بہت

لطف ہارونی

چمن سے رخصت گل ہے نہ لوٹنے کے لیے

تو بلبلوں کا تڑپنا یہاں پہ جائز ہے

نامعلوم

تمام شہر جسے چھوڑنے کو آیا ہے

وہ شخص کتنا اکیلا سفر پہ نکلے گا

کیفی وجدانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے