Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں پر شعر

ماں سے محبت کا جذبہ جتنے پر اثر طریقے سے غزلوں میں برتا گیا ہے، اتنا کسی اور صنف میں نہیں۔ ہم ایسے کچھ منتخب اشعار آپ تک پہنچا رہے ہیں، جو ماں کو موضوع بناتے ہیں۔ ماں کے پیار، اس کی محبت ، شفقت اور اپنے بچوں کے لئے اس کی جاں نثاری کو واضح کرتے ہوئے یہ اشعار جذبے کی جس شدت اور احساس کی جس گہرائی سے کہے گئے ہیں، اس سے متاثر ہوئے بغیر آپ نہیں رہ سکتے۔ ان اشعار کو پڑھئے اور ماں سے محبت کرنے والوں کے درمیان شئیر کیجئے ۔

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے

میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

منور رانا

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ

میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

عباس تابش

ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا

میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے

منور رانا

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے

ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

منور رانا

دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں

کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے

افتخار عارف

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

منور رانا

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

الطاف حسین حالی

جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

منور رانا

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

قیصر الجعفری

ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے

انجم سلیمی

تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک

مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی

منور رانا

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

منور رانا

برباد کر دیا ہمیں پردیس نے مگر

ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے

منور رانا

کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں

یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے

منور رانا

مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل

مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی

اقبال اشہر

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

کیف بھوپالی

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

منور رانا

کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں

ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے

سراج فیصل خان

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

اسلم کولسری

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

تنویر سپرا

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

منور رانا

سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا

ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا

احمد سلمان

دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن

ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے

منور رانا

دور رہتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل

اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

محمد علی ساحل

بچے فریب کھا کے چٹائی پہ سو گئے

اک ماں ابالتی رہی پتھر تمام رات

عبدالماجد نشتر جبل پوری

آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر

آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا

نواز ظفر

شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں

ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا

منور رانا

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

سبط علی صبا

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے

ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

عرفان صدیقی

ماں نے لکھا ہے خط میں جہاں جاؤ خوش رہو

مجھ کو بھلے نہ یاد کرو گھر نہ بھولنا

اجمل اجملی

اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر

میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

نظیر باقری

بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے

وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے

سید ضمیر جعفری

روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں

ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں

انجم سلیمی

ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں

سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر ہوتا ہے

انجم رہبر

شاید یوں ہی سمٹ سکیں گھر کی ضرورتیں

تنویرؔ ماں کے ہاتھ میں اپنی کمائی دے

تنویر سپرا

ماں خواب میں آ کر یہ بتا جاتی ہے ہر روز

بوسیدہ سی اوڑھی ہوئی اس شال میں ہم ہیں

منور رانا

سامنے ماں کے جو ہوتا ہوں تو اللہ اللہ

مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بچہ ہوں ابھی

محفوظ الرحمان عادل

بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی

قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو

فضیل جعفری

گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم

ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی

افتخار عارف

اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے

جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے

سید ضمیر جعفری

میں نے ماں کا لباس جب پہنا

مجھ کو تتلی نے اپنے رنگ دیے

فاطمہ حسن

وہ لمحہ جب مرے بچے نے ماں پکارا مجھے

میں ایک شاخ سے کتنا گھنا درخت ہوئی

حمیرا رحمان

کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے

کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا

انجم سلیمی

ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح

مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح

نامعلوم

بوڑھی ماں کا شاید لوٹ آیا بچپن

گڑیوں کا انبار لگا کر بیٹھ گئی

ارشاد خان سکندر

سرور جاں فزا دیتی ہے آغوش وطن سب کو

کہ جیسے بھی ہوں بچے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں

سرفراز شاہد
بولیے