Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hafeez Jalandhari's Photo'

حفیظ جالندھری

1900 - 1982 | لاہور, پاکستان

مقبول رومانی شاعر، پاکستان کا قومی ترانہ لکھا

مقبول رومانی شاعر، پاکستان کا قومی ترانہ لکھا

حفیظ جالندھری کے اشعار

46.5K
Favorite

باعتبار

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب

میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں

وفا جس سے کی بے وفا ہو گیا

جسے بت بنایا خدا ہو گیا

کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا

کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے

تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے

بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے

حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی

نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی

الٰہی ایک غم روزگار کیا کم تھا

کہ عشق بھیج دیا جان مبتلا کے لیے

او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا

اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا

جس نے اس دور کے انسان کیے ہیں پیدا

وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں

بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں

تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا

مجھ سے کیا ہو سکا وفا کے سوا

مجھ کو ملتا بھی کیا سزا کے سوا

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

مری مجبوریاں کیا پوچھتے ہو

کہ جینے کے لیے مجبور ہوں میں

دل لگاؤ تو لگاؤ دل سے دل

دل لگی ہی دل لگی اچھی نہیں

کس منہ سے کہہ رہے ہو ہمیں کچھ غرض نہیں

کس منہ سے تم نے وعدہ کیا تھا نباہ کا

مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے

سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں

بے تعلق زندگی اچھی نہیں

زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں

رنگ بدلا یار نے وہ پیار کی باتیں گئیں

وہ ملاقاتیں گئیں وہ چاندنی راتیں گئیں

دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا

کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں

تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک

قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا

نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل

ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا

احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں

لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے

زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں

موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے

بت کدے سے چلے ہو کعبے کو

کیا ملے گا تمہیں خدا کے سوا

حفیظؔ اہل زباں کب مانتے تھے

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا

ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر

ہم سے یہ بار لطف اٹھایا نہ جائے گا

احساں یہ کیجئے کہ یہ احساں نہ کیجئے

ہائے کوئی دوا کرو ہائے کوئی دعا کرو

ہائے جگر میں درد ہے ہائے جگر کو کیا کروں

ہاں میں تو لیے پھرتا ہوں اک سجدۂ بیتاب

ان سے بھی تو پوچھو وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں

اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل

کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا

چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا

سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو

تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں

بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو

کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے

ان تلخ آنسوؤں کو نہ یوں منہ بنا کے پی

یہ مے ہے خودکشید اسے مسکرا کے پی

ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا

دل سے درد اٹھتا ہے پہلے کہ جگر سے پہلے

نا کامئ عشق یا کامیابی

دونوں کا حاصل خانہ خرابی

دل سبھی کچھ زبان پر لایا

اک فقط عرض مدعا کے سوا

اس کی صورت کو دیکھتا ہوں میں

میری سیرت وہ دیکھتا ہی نہیں

ناصح کو بلاؤ مرا ایمان سنبھالے

پھر دیکھ لیا اس نے اسی ایک نظر سے

قائم کیا ہے میں نے عدم کے وجود کو

دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں

تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون

کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے

اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر

کیا کہیں دوست واہ وا کے سوا

آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر

نا خدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا

وفا کا لازمی تھا یہ نتیجہ

سزا اپنے کیے کی پا رہا ہوں

مرا تجربہ ہے کہ اس زندگی میں

پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں

یاران بے بساط کہ ہر بازئ حیات

کھیلے بغیر ہار گئے مات ہو گئی

پھر دے کے خوشی ہم اسے ناشاد کریں کیوں

غم ہی سے طبیعت ہے اگر شاد کسی کی

Recitation

بولیے