Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

درد پر اشعار

کلاسیکی شاعری میں درد

دل کا درد ہے جو عشق میں حاصل ہوتا ہے اور یہی عاشق کا سرمائے بھی ہے ۔ عمر بھر درد دل کی حفاظت ہی اس کا مقدر ہوتا ہے وہ اسے آہوں اور آنسووں سے سینچتا رہتا ہے۔ درد کا یہ پراثر بیانیہ شاعری میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جدید شاعری میں درد کے اور بہت سے محرکات ابھر کرسامنے آئے ہیں۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور درد کی ان صورتوں کو اپنے ذاتی حوالوں سے شناخت کیجئے۔

یہ دل کا درد تو عمروں کا روگ ہے پیارے

سو جائے بھی تو پہر دو پہر کو جاتا ہے

احمد فراز

پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش

مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا

امیر مینائی

دل مرا درد کے سوا کیا ہے

ابتدا یہ تو انتہا کیا ہے

سوز ہوشیارپوری

منت چارہ ساز کون کرے

درد جب جاں نواز ہو جائے

فیض احمد فیض

اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں

کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں

جاں نثار اختر

زخم کتنے تری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو

سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے

نظیر باقری

ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی

درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے

سید حامد

درد بڑھ کر دوا نہ ہو جائے

زندگی بے مزا نہ ہو جائے

علیم اختر مظفر نگری

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

حفیظ جالندھری

مرض عشق کو شفا سمجھے

درد کو درد کی دوا سمجھے

جگر بریلوی

بیمار غم کی چارہ گری کچھ ضرور ہے

وہ درد دل میں دے کہ مسیحا کہیں جسے

آسی غازی پوری

ایک دل ہے کہ نہیں درد سے دم بھر خالی

ورنہ کیا کیا نظر آئے نہ بھرے گھر خالی

جلیل مانک پوری

کی ترک محبت تو لیا درد جگر مول

پرہیز سے دل اور بھی بیمار پڑا ہے

لالہ مادھو رام جوہر

بھیگی مٹی کی مہک پیاس بڑھا دیتی ہے

درد برسات کی بوندوں میں بسا کرتا ہے

مرغوب علی

اک درد محبت ہے کہ جاتا نہیں ورنہ

جس درد کی ڈھونڈے کوئی دنیا میں دوا ہے

مصحفی غلام ہمدانی

درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا

آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی

غلام بھیک نیرنگ

صبر اے دل کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی

ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا

حبیب اشعر دہلوی

مجھے منظور گر ترک تعلق ہے رضا تیری

مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ

احمد ندیم قاسمی

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

فیض احمد فیض

زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا

اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا

زیب غوری

زیبؔ مجھے ڈر لگنے لگا ہے اپنے خوابوں سے

جاگتے جاگتے درد رہا کرتا ہے مرے سر میں

زیب غوری

جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے

درد کے عنواں بدل کر رہ گئے

صوفی تبسم

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا

کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

شاد عظیم آبادی

درد سر ہے خمار سے مجھ کو

جلد لے کر شراب آ ساقی

تاباں عبد الحی

اے محبت تجھے خبر ہوگی

درد اٹھ اٹھ کے ڈھونڈھتا کیا ہے

سوز ہوشیارپوری

وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا

درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے

صدا انبالوی

اس نے میری شاخوں کو اس طرح نمو بخشی

زخم کے کھلیں گے پھول درد کا چمن ہوگا

عابدہ کرامت

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

مرزا غالب

درد دل کتنا پسند آیا اسے

میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی

آسی غازی پوری

جونؔ جنوب زرد کے خاک بسر یہ دکھ اٹھا

موج شمال سبز جاں آئی تھی اور چلی گئی

جون ایلیا

اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو

تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے

الطاف حسین حالی

تم تھے تو ہر اک درد تمہیں سے تھا عبارت

اب زندگی خانوں میں بسر ہونے لگی ہے

سرفراز خالد

درد ہو دکھ ہو تو دوا کیجے

پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے

جگر بریلوی

میرا کرب مری تنہائی کی زینت

میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں

عنبر بہرائچی

زخم کہتے ہیں دل کا گہنہ ہے

درد دل کا لباس ہوتا ہے

گلزار

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

وزیر علی صبا لکھنؤی

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

افتخار عارف

ہائے کوئی دوا کرو ہائے کوئی دعا کرو

ہائے جگر میں درد ہے ہائے جگر کو کیا کروں

حفیظ جالندھری

جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے

تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

ناصر کاظمی

درد کیسا جو ڈبوئے نہ بہا لے جائے

کیا ندی جس میں روانی ہو نہ گہرائی ہو

عرفان صدیقی

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی

حکیم محمد اجمل خاں شیدا

لذت درد ملی عشرت احساس ملی

کون کہتا ہے ہم اس بزم سے ناکام آئے

علی جواد زیدی

عشق کو دیجئے جنوں میں فروغ

درد سے درد کی دوا کیجئے

جگر بریلوی

جو زخم دیتا ہے تو بے اثر ہی دیتا ہے

خلش وہ دے کہ جسے بھول بھی نہ پاؤں میں

خلیل تنویر

گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی

وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا

اختر ہوشیارپوری

وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

شکیل بدایونی

عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا

ہنس ہنس کے آہ آہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے

کیوں چارہ ساز تجھ کو امید شفا بھی ہے

فانی بدایونی

دل کو غم راس ہے یوں گل کو صبا ہو جیسے

اب تو یہ درد کی صورت ہی دوا ہو جیسے

ہوش ترمذی
  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر

یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے