Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Ghalib's Photo'

مرزا غالب

1797 - 1869 | دلی, انڈیا

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

مرزا غالب کے اشعار

449.5K
Favorite

باعتبار

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جس قدر سادہ الفاظ آسان استعمال ہوئے ہیں اسی قدر خیال میں سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ عام قاری یہی مفہوم نکال سکتا ہے کہ جب کچھ موجود نہیں تھا تو خدا کی ذات موجود تھی۔ اگر کائنات میں کچھ بھی نہ ہوتا تو پھر بھی خدا کی ذات ہی موجود رہتی۔ یعنی خدا کی ذات کسی ظاہری شے کے وجود کی محتاج نہیں بلکہ ہر شے اس کی ذات کی محتاج ہے۔ دوسرے مصرع میں یہ بیان ہوا ہے کہ مجھ کو اپنے ہونے یعنی اپنی ذات سے نقصان پہنچا اگر میں نہیں ہوتا تو نہ جانے میرے وجود کی نوعیت کیا ہوتی۔

مگر اس شعر کے اصلی معنوں کے سمجھنے کے لئے تصوف کے دو بڑے نظریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک نظریے کو ہمہ اوست کہتے اور دوسرے کو ہمہ ازاوست۔ ہمہ اوست کے معنی سب کچھ خدا ہے۔ صوفیوں کا قول ہے کہ خدا کے سوا کسی شے کا وجود نہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہے۔ ہمہ از اوست کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزیں خدا سے نہیں۔ مطلب یہ کہ کوئی چیز بذات خود موجود نہیں بلکہ ہر چیز اپنی ہستی کے لئے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

ہمہ اوست فرقے سے تعلق رکھنے والے صوفیا کا کہنا ہے کہ چونکہ خدا خود فرماتا ہے کہ میں زمین اور آسمانوں کا نور ہوں لہٰذا ہر شے اس نور کا ایک حصہ ہے۔

اسی نظریے سے متاثرہوکر غالب نے یہ خیال باندھا ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی ذات سب سے قدیم ذات ہے۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی خدا کی ذات موجود تھی اور خدا کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ یعنی جب کچھ بھی نہ ہوگا تب خدا کی ذات موجود رہے گی۔ یہاں مقصد قیامت سے ہے جب اللہ کے حکم سے سب مخلوقات ختم ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ یکہ و تنہا موجود رہے گا۔

اسی حقیقت کے تناظر میں غالب کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کی ذات قدیم ہے اس لئے جب اس کائنات میں کچھ موجود نہیں تھا تو اس کی ذات موجود تھی اور جب کوئی ہستی موجود نہ رہے گی تب بھی اللہ کی ہی ذات موجود رہے گی اور چونکہ میں اللہ تعالیٰ کے نور کا یعنی ایک جزو ہوں اور مجھے میرے پیداہونے نےاس کامل نور سے جدا کیا اس لئے میری ہستی میرے لئے نقصان کا باعث ہے۔ یعنی میرے ہونے مجھے ڈبویا کہ میں کل سے جزو بن گیا۔ اگر میں نہیں ہوتا تو کیا ہوگا یعنی کامل نور ہوتا۔

شفق سوپوری

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

تشریح

یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ تیر نیم کش کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔

دیکھا جائے تو بنیادی طور پر تیر نیم کش کے معنی ادھ کھنچا تیر ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔

یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تیر نیم کش وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔

پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ کوئی میرے دل سے پوچھے یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو کوئی میرے دل سے پوچھے یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کے بعد یہ خلش کہاں سے ہوتی کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔

اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک تیر نیم کش سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔

سیف ازہر

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

تشریح

یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔

شفق سوپوری

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

تشریح

یہ غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ غرق کے معنی ڈوبنا۔ غرق دریا کے معنی ہیں دریا میں ڈوبنا رسوا ہونا کے معنی ہیں ذلیل ہونا۔

غالب نے اس شعر میں ایک خوبصورت خیال پیش کیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ اٹھا۔ پھر میری قبر بن گئی اور اس طرح سے میں ذلیل ہو گیا۔ کتنا اچھا تھا کہ اگر میں دریا ڈوب کے مرجاتا نہ میری لاش ملتی، نہ میرا جنازہ اٹھتا اور نہ میری قبر ہی بن جاتی۔ یہ تو ہوئے قریب کے معنی اصلی مراد غالب کی یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں اتنا رسوا ہوا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی میری رسوائی نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یعنی جب میں مر گیا۔ لوگوں نے میرا جنازہ اٹھایا اور پھر ایک دوسرے سے پوچھا کہ کس کا جنازہ جا رہا ہے؟ پوچھنے پر جب معلوم ہوا تو بولے کہ ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کا جنازہ ہے؟ پھر جب میری قبر بن گئی تب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟ معلوم ہوا کہ غالب کی ہے پھر بولے ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کی قبر ہے۔ اس طرح سے غالب تا قیامت رسوا ہوتے رہیں گے۔ اسی لئے وہ اس خواہش کا اطہار کرتے ہیں کہ کاش ہماری موت دریا میں ڈوبنے سے ہوتی اور ہماری لاش دریا سے برآمد ہی نہ ہوتی۔

شفق سوپوری

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

Recitation

بولیے