Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mohammad Alvi's Photo'

محمد علوی

1927 - 2018 | احمد آباد, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں۔ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ

محمد علوی کے اشعار

34K
Favorite

باعتبار

ڈھونڈنے میں بھی مزہ آتا ہے

کوئی شے رکھ کے بھلا دی جائے

ہر وقت کھلتے پھول کی جانب تکا نہ کر

مرجھا کے پتیوں کو بکھرتے ہوئے بھی دیکھ

دھوپ نے گزارش کی

ایک بوند بارش کی

کمرے میں مزے کی روشنی ہو

اچھی سی کوئی کتاب دیکھوں

موت بھی دور بہت دور کہیں پھرتی ہے

کون اب آ کے اسیروں کو رہائی دے گا

گاڑی آتی ہے لیکن آتی ہی نہیں

ریل کی پٹری دیکھ کے تھک جاتا ہوں میں

نظروں سے ناپتا ہے سمندر کی وسعتیں

ساحل پہ اک شخص اکیلا کھڑا ہوا

ایسا ہنگامہ نہ تھا جنگل میں

شہر میں آئے تو ڈر لگتا تھا

ابھی دو چار ہی بوندیں گریں ہیں

مگر موسم نشیلا ہو گیا ہے

اب نہ غالبؔ سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا

بن گیا میں بھی نشانہ ریختہ کے تیر کا

پر تول کے بیٹھی ہے مگر اڑتی نہیں ہے

تصویر سے چڑیا کو اڑا دینا چاہیئے

گواہی دیتا وہی میری بے گناہی کی

وہ مر گیا تو اسے اب کہاں سے لاؤں میں

سامنے دیوار پر کچھ داغ تھے

غور سے دیکھا تو چہرے ہو گئے

دن بھر بچوں نے مل کر پتھر پھینکے پھل توڑے

سانجھ ہوئی تو پنچھی مل کر رونے لگے درختوں پر

کہاں بھٹکتے پھرو گے علویؔ

سڑک سے پوچھو کدھر گئی ہے

سردی میں دن سرد ملا

ہر موسم بے درد ملا

بہت خوش ہوئے آئینہ دیکھ کر

یہاں کوئی ثانی ہمارا نہ تھا

ارے یہ دل اور اتنا خالی

کوئی مصیبت ہی پال رکھیے

آسمان پر جا پہنچوں

اللہ تیرا نام لکھوں

حیران مت ہو تیرتی مچھلی کو دیکھ کر

پانی میں روشنی کو اترتے ہوئے بھی دیکھ

رات پڑے گھر جانا ہے

صبح تلک مر جانا ہے

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں

مرنے کے ڈر سے اور کہاں تک جئے گا تو

جینے کے دن تمام ہوئے انتقال کر

رات ملی تنہائی ملی اور جام ملا

گھر سے نکلے تو کیا کیا آرام ملا

علویؔ نے آج دن میں کہانی سنائی تھی

شاید اسی وجہ سے میں رستہ بھٹک گیا

بلا رہا تھا کوئی چیخ چیخ کر مجھ کو

کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا

دیکھا تو سب کے سر پہ گناہوں کا بوجھ تھا

خوش تھے تمام نیکیاں دریا میں ڈال کر

منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے

پہلے بچے بھی کتنے بوڑھے تھے

علویؔ خواہش بھی تھی بانجھ

جذبہ بھی نا مرد ملا

چھوڑ گیا مجھ کو علویؔ

شاید وہ جلدی میں تھا

علویؔ یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا

سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں

غم بہت دن مفت کی کھاتا رہا

اب اسے دل سے نکالا چاہیئے

کچھ تو اس دل کو سزا دی جائے

اس کی تصویر ہٹا دی جائے

رات کون آیا تھا

کر گیا سحر روشن

اتار پھینکوں بدن سے پھٹی پرانی قمیص

بدن قمیص سے بڑھ کر کٹا پھٹا دیکھوں

صبح سے کھود رہا ہوں گھر کو

خواب دیکھا ہے خزانے والا

مطمئن ہے وہ بنا کر دنیا

کون ہوتا ہوں میں ڈھانے والا

میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں

کون یہاں سو سال جیا ہے

رکھتے ہو اگر آنکھ تو باہر سے نہ دیکھو

دیکھو مجھے اندر سے بہت ٹوٹ چکا ہوں

اچھے دن کب آئیں گے

کیا یوں ہی مر جائیں گے

کتنا مشکل ہے زندگی کرنا

اور نہ سوچو تو کتنا آساں ہے

اور بازار سے کیا لے جاؤں

پہلی بارش کا مزا لے جاؤں

گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو

دیواروں نے گھیر لیا ہے

بچھڑتے وقت ایسا بھی ہوا ہے

کسی کی سسکیاں اچھی لگی ہیں

مانا کہ تو ذہین بھی ہے خوب رو بھی ہے

تجھ سا نہ میں ہوا تو بھلا کیا برا ہوا

کانٹے کی طرح سوکھ کے رہ جاؤ گے علویؔ

چھوڑو یہ غزل گوئی یہ بیماری بری ہے

تھوڑی سردی ذرا سا نزلہ ہے

شاعری کا مزاج پتلا ہے

بکھیر دے مجھے چاروں طرف خلاؤں میں

کچھ اس طرح سے الگ کر کہ جڑ نہ پاؤں میں

کیوں سر کھپا رہے ہو مضامیں کی کھوج میں

کر لو جدید شاعری لفظوں کو جوڑ کر

تڑا مڑا ہے مگر خدا ہے

اسے تو صاحب سنبھال رکھیے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے