Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jigar Moradabadi's Photo'

جگر مراد آبادی

1890 - 1960 | مراد آباد, انڈیا

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

جگر مراد آبادی کے اشعار

147.6K
Favorite

باعتبار

سنتے تھے محبت آساں ہے واللہ بہت آساں ہے مگر

اس سہل میں جو دشواری ہے وہ مشکل سی مشکل میں نہیں

آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے

گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے

جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا

چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری

میرے درد میں یہ خلش کہاں میرے سوز میں یہ تپش کہاں

کسی اور ہی کی پکار ہے مری زندگی کی صدا نہیں

دھڑکنے لگا دل نظر جھک گئی

کبھی ان سے جب سامنا ہو گیا

آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں

نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی

اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں

گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا

وہی ہے آگ مگر آگ میں دھواں نہ رہا

سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اسے بے پردہ دیکھے گی

مجھے ڈر ہے نہ توہین جمال یار ہو جائے

مجھ کو مست شراب ہونا تھا

محتسب کو کباب ہونا تھا

یہ مے خانہ ہے بزم جم نہیں ہے

یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد

یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے

نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے

ترے ذکر سے تری فکر سے تری یاد سے ترے نام سے

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

مجھ کو نہیں قبول دو عالم کی وسعتیں

قسمت میں کوئے یار کی دو گز زمیں رہے

یہ راز سن رہے ہیں اک موج دلنشیں سے

ڈوبے ہیں ہم جہاں پر ابھریں گے پھر وہیں سے

ضبط کا جنہیں دعویٰ عشق میں رہا اکثر

حال ہم نے دیکھا ہے بیشتر خراب ان کا

صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا

وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے

ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری

کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

آپ کے دشمن رہیں وقف خلش صرف تپش

آپ کیوں غم خواری بیمار ہجراں کیجیے

سب پہ تو مہربان ہے پیارے

کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے

کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام

آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا

کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم

ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش

شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا

ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگرؔ

ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں

تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں

ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا

برابر سے بچ کر گزر جانے والے

یہ نالے نہیں بے اثر جانے والے

احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ

اب آفتاب زیست لب بام آ گیا

کیا خبر تھی خلش ناز نہ جینے دے گی

یہ تری پیار کی آواز نہ جینے دے گی

لبوں پہ موج تبسم نگہ میں برق غضب

کوئی بتائے یہ انداز برہمی کیا ہے

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

دل گیا رونق حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی

  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

ہوں خطا کار سیاہ کار گنہ گار مگر

کس کو بخشے تری رحمت جو گنہ گار نہ ہو

کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ

میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا

آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر

ایک تنہا آدمیت ہی نہیں

مجھی میں رہے مجھ سے مستور ہو کر

بہت پاس نکلے بہت دور ہو کر

مرے رشک بے نہایت کو نہ پوچھ میرے دل سے

تجھے تجھ سے بھی چھپاتا اگر اختیار ہوتا

وہ خلش جس سے تھا ہنگامۂ ہستی برپا

وقف بیتابئ خاموش ہوئی جاتی ہے

ہجو نے تو ترا اے شیخ بھرم کھول دیا

تو تو مسجد میں ہے نیت تری مے خانے میں

محبت، صلح بھی پیکار بھی ہے

یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے

جب تک ہمارے پاس رہے ہم نہیں رہے

دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو

بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو

آتش عشق وہ جہنم ہے

جس میں فردوس کے نظارے ہیں

میری بربادیاں درست مگر

تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہو گیا

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے