Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jaleel Manikpuri's Photo'

جلیل مانک پوری

1866 - 1946 | حیدر آباد, انڈیا

مقبول ترین مابعد کلاسیکی شاعروں میں نمایاں۔ امیر مینائی کے شاگرد۔ داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء

مقبول ترین مابعد کلاسیکی شاعروں میں نمایاں۔ امیر مینائی کے شاگرد۔ داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء

جلیل مانک پوری کے اشعار

106.1K
Favorite

باعتبار

ایسے چھپنے سے نہ چھپنا ہی تھا بہتر تیرا

تو ہے پردے میں مگر ذکر ہے گھر گھر تیرا

بوئے گل تھا میں ہاتھ کیا آتا

کتنے صیاد لے کے دام آئے

مر کے یاد آئے مزے دنیا کے

گھر سے نکلے تھے کہ گھر یاد آیا

آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے

ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں

دلچسپ ہو گئی ترے چلنے سے رہ گزر

اٹھ اٹھ کے گرد راہ لپٹتی ہے راہ سے

وہ تو کیا اس کا تصور بھی جلیلؔ

بصد انداز و بصد ناز آیا

اب آؤ رکھ لوں چھپا کر تمہیں کلیجے میں

ہوئے ہو خیر سے شرم و حجاب کے قابل

کوئی کیا جانے کہ ہے روز قیامت کیا چیز

دوسرا نام ہے میری شب تنہائی کا

جتنے تھے جاں نثار وہ سب ہو گئے نثار

رونق ہی رونق آپ کی محفل میں رہ گئی

اس طرح بھیس میں عاشق کے چھپا ہے معشوق

جس طرح آنکھ کے پردے میں نظر ہوتی ہے

آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار

لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر

سب کچھ ہم ان سے کہہ گئے لیکن یہ اتفاق

کہنے کی تھی جو بات وہی دل میں رہ گئی

بہار ایک دم کی ہے کھلتا نہیں کچھ

یہ گل کھل رہے ہیں کہ مرجھا رہے ہیں

کر گئی دیوانگی ہم کو بری ہر جرم سے

چاک دامانی سے اپنی پاک دامانی ہوئی

وہ دل میں آ کے نکلتے نہیں ہیں پھر دل سے

وہیں کے ہو رہے دم بھر جہاں قیام کیا

وہ چاندنی میں پھرتے ہیں گھر گھر یہ شور ہے

نکلا ہے آفتاب شب ماہتاب میں

دیکھتا میں اسے کیوں کر کہ نقاب اٹھتے ہی

بن کے دیوار کھڑی ہو گئی حیرت میری

پینے سے کر چکا تھا میں توبہ مگر جلیلؔ

بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی

زاہد کی طرح خشک مسلماں نہیں جلیلؔ

عشق بتاں بھی دل میں ہے یاد خدا بھی ہے

کیاریاں دیکھ کے پھولوں کی وہ فرماتے ہیں

ٹکڑیاں ہیں یہ مرے چاک گریبانوں کی

ہوش آنے کا تھا جو خوف مجھے

مے کدے سے نہ عمر بھر نکلا

تڑپ میری ترقی کر رہی ہے

زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے

حسن یہ ہے کہ دل ربا ہو تم

عیب یہ ہے کہ بے وفا ہو تم

مے کدے کی یہ اداسی نہیں دیکھی جاتی

نہیں معلوم ہے کیا دیر بہار آنے میں

یوں تو آتی ہیں سیکڑوں باتیں

وقت پر ایک بھی نہیں آتی

روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو

میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری

آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں

دل بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی

برساؤ تیر مجھ پہ مگر اتنا جان لو

پہلو میں دل ہے دل میں تمہارا خیال ہے

رات کو آ کر جو تم ملتے تو ہاں اک بات تھی

صبح کو صورت دکھانے آفتاب آیا تو کیا

دید کے قابل حسیں تو ہیں بہت

ہر نظر دیدار کے قابل نہیں

کوئی فتنہ نہ اٹھا فتنۂ قامت کی طرح

کوئی جادو نظر آیا نہ نظر کی صورت

ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام

بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی

صبر آ جائے اس کی کیا امید

میں وہی، دل وہی ہے تو ہے وہی

چرخ کو مد نظر ہے کھینچنا پوری شبیہ

ماہ نو تو صرف خاکہ ہے تری تصویر کا

بے پیے چین نہیں ہوش نہیں جان نہیں

شوق کاہے کو مرض ہے مجھے مے خواری کا

نگاہ گل سے بلبل یوں گری ہے

گرے جس طرح تنکا آشیاں سے

چھپا نہ راز محبت کا بوئے گل کی طرح

جو بات دل میں تھی وہ درمیاں نکل آئی

سب گئے پوچھنے مزاج ان کا

میں گیا اپنی داستاں لے کر

تجھ سے ملنے پر بت بے درد یہ عقدہ کھلا

بھولی بھالی شکل والے ہوتے ہیں جلاد بھی

جس دن مئے الست کی موج آ گئی مجھے

رنگ دوں گا ایک رنگ میں سارے جہاں کو میں

اس زلف کے پھندے سے نکلنا نہیں ممکن

ہاں مانگ کوئی راہ نکالے تو نکالے

محو ہوں اس قدر تصور میں

شک یہ ہوتا ہے میں ہوں یا تو ہے

حسن آفت نہیں تو پھر کیا ہے

تو قیامت نہیں تو پھر کیا ہے

شکر ہے باندھ لیا اپنے کھلے بالوں کو

اس نے شیرازۂ عالم کو بکھرنے نہ دیا

تو نے او بے وفا کیا جاتی دنیا دیکھ لی

راہ پر آنے لگا عہد وفا ہونے لگے

ہو ہری شاخ تمنا یا نہ ہو

سینچ دینا چشم تر کا کام ہے

سوتے میں وہ جو مجھ سے ہم آغوش ہو گئے

جتنے گلے تھے خواب فراموش ہو گئے

گہن سے چاند نکلتا ہے کس طرح دیکھیں

نقاب کو رخ روشن سے کھول کھال کے پھینک

سب سے پیاری ہے جان دنیا میں

جان سے بڑھ کے جان جاں تو ہے

تمیز دیر و کعبہ ہے نہ فکر دین و دنیا ہے

یہ رند پاک طینت بھی ترے اللہ والے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے