جلیل مانک پوری کے اشعار
دل کبھی لاکھ خوشامد پہ بھی راضی نہ ہوا
کبھی اک جھوٹے ہی وعدے پہ بہلتے دیکھا
جھوٹے وعدے بھی نہیں کرتے آپ
کوئی جینے کا سہارا ہی نہیں
تو نے صورت نہ دکھائی تو یہ صورت ہوگی
لوگ دیکھیں گے تماشا ترے دیوانے کا
آج ہے وہ بہار کا موسم
پھول توڑوں تو ہاتھ جام آئے
بحر غم سے پار ہونے کے لیے
موت کو ساحل بنایا جائے گا
ہوئی مدت کہ چمن چھوٹ گیا
اب ہمیں کیا جو بہار آئی ہے
رندوں کے ہاتھ سے نہیں ٹوٹی یہ ساقیا
نشے میں چور ہو گئی بوتل شراب کی
شمع سے چاند سوا چاند سے خورشید سوا
اور ان سب سے سوا ہے رخ انور تیرا
درد دل سے اٹھا نہیں جاتا
جب سے وہ ہاتھ رکھ گئے دل پر
جلیلؔ آنے لگی ہیں ہچکیاں کیوں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں
کھو کے دل میرا تمہیں ناحق پشیمانی ہوئی
تم سے نادانی ہوئی یا مجھ سے نادانی ہوئی
فریاد اے تصور ابروئے دل فریب
قبلہ کی سمت بھول گیا ہوں نماز میں
وہ دل لے کے خوش ہیں مجھے یہ خوشی ہے
کہ پاس ان کے رہتا ہوں میں دور ہو کر
چھوٹی سی عمر میں ہیں وہ دل بر تو عیب کیا
سن کی کمی نکل گئی زلف دراز سے
کی محتسب نے آج یہ اصلاح میکدہ
شیشوں کو توڑ توڑ کے پیمانہ کر دیا
کچھ اختیار کسی کا نہیں طبیعت پر
یہ جس پہ آتی ہے بے اختیار آتی ہے
اشکوں نے گر کے خاک پہ مٹی خراب کی
کیا کیا ہنسی اڑی مری چشم پر آب کی
وہی ہے رنگ ابھی تک جگر کے داغوں کا
یہاں جو پھول کھلا وہ سدا بہار ہوا
سب ہوئے محو اسے دیکھ جدھر سے نکلا
تھے تعجب میں کہ یہ چاند کدھر سے نکلا
ٹپکنا اشک کا تمہید ہے دیدار کی جیسے
طلوع مہر سے پہلے ستارہ صبح دم نکلے
کیا جانے شیخ قدر ہماری شراب کی
ہر گھونٹ میں پڑی ہوئی رحمت خدا کی ہے
درد بکتا نہیں بازار جہاں میں ورنہ
جان تک بیچ کے لیتا میں ترے دل کے لئے
ہے آباد میرے تصور کی دنیا
حسیں آ رہے ہیں حسیں جا رہے ہیں
حیران ہوں کہ پیر مغاں کے لباس میں
آئے کہاں سے جامۂ احرام کے خواص
منہ ترا دیکھے جو سوتے جاگتے
صبح اس کی ہے اسی کی شام ہے
صحرا کی اب ہوا جو لگی ہو گیا ہرن
مجنوں کے بس کا ناقۂ لیلیٰ نہیں رہا
تجھ کو شکوہ ہے کہ عشاق نے بد نام کیا
سچ تو یہ ہے کہ ترا حسن ہے دشمن تیرا
وصل کی رات خوشی نے مجھے سونے نہ دیا
میں بھی بے دار رہا طالع بے دار کے ساتھ
یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن
وہ کہاں شمع میں جو آگ ہے پروانے میں
جب سے چھوٹا ہے گلستاں ہم سے
روز سنتے ہیں بہار آئی ہے
نہ وہ آئیں کہ راحت ہو نہ موت آئے کہ فرصت ہو
پڑا ہے دل کشاکش میں نہ غم نکلے نہ دم نکلے
ان حسینوں سے خدا سابقہ ڈالے نہ کبھی
سب کو برباد کیا دل میں رہے جس جس کے
ہم کیا کریں سوال یہ سوچا نہیں ابھی
وہ کیا جواب دیں گے یہ دھڑکا ابھی سے ہے
غرور سے جو زمیں پر قدم نہیں رکھتی
یہ کس گلی سے نسیم بہار آتی ہے
خار ہیں ہم جو نظر میں تو چلے جاتے ہیں
باغباں تجھ کو مبارک رہے گلشن تیرا
سو تہہ سے نمودار ہو ابھرا ہوا جوبن
یہ دل نہیں جس کو کوئی آنچل میں چھپا لے
ان کی صورت دیکھ لی خوش ہو گئے
ان کی سیرت سے ہمیں کیا کام ہے
تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف
آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ
سچ کہا زاہد یہ تو نے زہر قاتل ہے شراب
ہم بھی کہتے تھے یہی جب تک بہار آئی نہ تھی
ملا نہ لطف وصال لیکن مزے کا شب بھر رہا تماشا
ادھر کھلا بند اس قبا کا گرہ لگا دی ادھر حیا نے
نہ اشارہ نہ کنایہ نہ تبسم نہ کلام
پاس بیٹھے ہیں مگر دور نظر آتے ہیں
صورت تو ابتدا سے تری لا جواب تھی
ناز و ادا نے اور طرح دار کر دیا
جز بے خودی گزر نہیں کوئے حبیب میں
گم ہو گیا جو میں تو ملا راستہ مجھے
فصل گل آئی جنوں اچھلا جلیلؔ
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
ابھی کچھ دیر ہے صیاد بہار آنے میں
اور دو روز قفس سے مجھے آزاد نہ کر
ابر میں بادہ پرستوں کا جو ہوتا ہے ہجوم
محتسب آ کے برستا ہے گھٹا سے پہلے
میں سمجھتا ہوں کہ ہے جنت و دوزخ کیا چیز
ایک ہے وصل ترا ایک ہے فرقت تیری
آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے
لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا
دکان مے پہ پہنچ کر کھلی حقیقت حال
حیات بیچ رہا تھا وہ مے فروش نہ تھا