Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jaleel Manikpuri's Photo'

جلیل مانک پوری

1866 - 1946 | حیدر آباد, انڈیا

مقبول ترین مابعد کلاسیکی شاعروں میں نمایاں۔ امیر مینائی کے شاگرد۔ داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء

مقبول ترین مابعد کلاسیکی شاعروں میں نمایاں۔ امیر مینائی کے شاگرد۔ داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء

جلیل مانک پوری کے اشعار

101.1K
Favorite

باعتبار

دل کبھی لاکھ خوشامد پہ بھی راضی نہ ہوا

کبھی اک جھوٹے ہی وعدے پہ بہلتے دیکھا

جھوٹے وعدے بھی نہیں کرتے آپ

کوئی جینے کا سہارا ہی نہیں

تو نے صورت نہ دکھائی تو یہ صورت ہوگی

لوگ دیکھیں گے تماشا ترے دیوانے کا

آج ہے وہ بہار کا موسم

پھول توڑوں تو ہاتھ جام آئے

بحر غم سے پار ہونے کے لیے

موت کو ساحل بنایا جائے گا

ہوئی مدت کہ چمن چھوٹ گیا

اب ہمیں کیا جو بہار آئی ہے

رندوں کے ہاتھ سے نہیں ٹوٹی یہ ساقیا

نشے میں چور ہو گئی بوتل شراب کی

شمع سے چاند سوا چاند سے خورشید سوا

اور ان سب سے سوا ہے رخ انور تیرا

درد دل سے اٹھا نہیں جاتا

جب سے وہ ہاتھ رکھ گئے دل پر

جلیلؔ آنے لگی ہیں ہچکیاں کیوں

کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں

کھو کے دل میرا تمہیں ناحق پشیمانی ہوئی

تم سے نادانی ہوئی یا مجھ سے نادانی ہوئی

فریاد اے تصور ابروئے دل فریب

قبلہ کی سمت بھول گیا ہوں نماز میں

وہ دل لے کے خوش ہیں مجھے یہ خوشی ہے

کہ پاس ان کے رہتا ہوں میں دور ہو کر

چھوٹی سی عمر میں ہیں وہ دل بر تو عیب کیا

سن کی کمی نکل گئی زلف دراز سے

کی محتسب نے آج یہ اصلاح میکدہ

شیشوں کو توڑ توڑ کے پیمانہ کر دیا

کچھ اختیار کسی کا نہیں طبیعت پر

یہ جس پہ آتی ہے بے اختیار آتی ہے

اشکوں نے گر کے خاک پہ مٹی خراب کی

کیا کیا ہنسی اڑی مری چشم پر آب کی

وہی ہے رنگ ابھی تک جگر کے داغوں کا

یہاں جو پھول کھلا وہ سدا بہار ہوا

سب ہوئے محو اسے دیکھ جدھر سے نکلا

تھے تعجب میں کہ یہ چاند کدھر سے نکلا

ٹپکنا اشک کا تمہید ہے دیدار کی جیسے

طلوع مہر سے پہلے ستارہ صبح دم نکلے

کیا جانے شیخ قدر ہماری شراب کی

ہر گھونٹ میں پڑی ہوئی رحمت خدا کی ہے

درد بکتا نہیں بازار جہاں میں ورنہ

جان تک بیچ کے لیتا میں ترے دل کے لئے

ہے آباد میرے تصور کی دنیا

حسیں آ رہے ہیں حسیں جا رہے ہیں

حیران ہوں کہ پیر مغاں کے لباس میں

آئے کہاں سے جامۂ احرام کے خواص

جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے

جب تم چلو زمین چلے آسماں چلے

منہ ترا دیکھے جو سوتے جاگتے

صبح اس کی ہے اسی کی شام ہے

صحرا کی اب ہوا جو لگی ہو گیا ہرن

مجنوں کے بس کا ناقۂ لیلیٰ نہیں رہا

تجھ کو شکوہ ہے کہ عشاق نے بد نام کیا

سچ تو یہ ہے کہ ترا حسن ہے دشمن تیرا

وصل کی رات خوشی نے مجھے سونے نہ دیا

میں بھی بے دار رہا طالع بے دار کے ساتھ

یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن

وہ کہاں شمع میں جو آگ ہے پروانے میں

جب سے چھوٹا ہے گلستاں ہم سے

روز سنتے ہیں بہار آئی ہے

نہ وہ آئیں کہ راحت ہو نہ موت آئے کہ فرصت ہو

پڑا ہے دل کشاکش میں نہ غم نکلے نہ دم نکلے

ان حسینوں سے خدا سابقہ ڈالے نہ کبھی

سب کو برباد کیا دل میں رہے جس جس کے

ہم کیا کریں سوال یہ سوچا نہیں ابھی

وہ کیا جواب دیں گے یہ دھڑکا ابھی سے ہے

غرور سے جو زمیں پر قدم نہیں رکھتی

یہ کس گلی سے نسیم بہار آتی ہے

خار ہیں ہم جو نظر میں تو چلے جاتے ہیں

باغباں تجھ کو مبارک رہے گلشن تیرا

سو تہہ سے نمودار ہو ابھرا ہوا جوبن

یہ دل نہیں جس کو کوئی آنچل میں چھپا لے

ان کی صورت دیکھ لی خوش ہو گئے

ان کی سیرت سے ہمیں کیا کام ہے

تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف

آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ

سچ کہا زاہد یہ تو نے زہر قاتل ہے شراب

ہم بھی کہتے تھے یہی جب تک بہار آئی نہ تھی

ملا نہ لطف وصال لیکن مزے کا شب بھر رہا تماشا

ادھر کھلا بند اس قبا کا گرہ لگا دی ادھر حیا نے

نہ اشارہ نہ کنایہ نہ تبسم نہ کلام

پاس بیٹھے ہیں مگر دور نظر آتے ہیں

صورت تو ابتدا سے تری لا جواب تھی

ناز و ادا نے اور طرح دار کر دیا

جز بے خودی گزر نہیں کوئے حبیب میں

گم ہو گیا جو میں تو ملا راستہ مجھے

فصل گل آئی جنوں اچھلا جلیلؔ

اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

ابھی کچھ دیر ہے صیاد بہار آنے میں

اور دو روز قفس سے مجھے آزاد نہ کر

ابر میں بادہ پرستوں کا جو ہوتا ہے ہجوم

محتسب آ کے برستا ہے گھٹا سے پہلے

میں سمجھتا ہوں کہ ہے جنت و دوزخ کیا چیز

ایک ہے وصل ترا ایک ہے فرقت تیری

آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے

لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا

دکان مے پہ پہنچ کر کھلی حقیقت حال

حیات بیچ رہا تھا وہ مے فروش نہ تھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے