Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jigar Moradabadi's Photo'

جگر مراد آبادی

1890 - 1960 | مراد آباد, انڈیا

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

ممتاز ترین قبل ازجدید شاعروں میں نمایاں، بے پناہ مقبولیت کے لئے معروف

جگر مراد آبادی کے اشعار

156.6K
Favorite

باعتبار

درد و غم دل کی طبیعت بن گئے

اب یہاں آرام ہی آرام ہے

ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے

رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

مسرت زندگی کا دوسرا نام

مسرت کی تمنا مستقل غم

عشق پر کچھ نہ چلا دیدۂ تر کا قابو

اس نے جو آگ لگا دی وہ بجھائی نہ گئی

کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر

میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر

جنون محبت یہاں تک تو پہنچا

کہ ترک محبت کیا چاہتا ہوں

پی رہا ہوں آنکھوں آنکھوں میں شراب

اب نہ شیشہ ہے نہ کوئی جام ہے

ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے

مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے

آنکھوں میں نور جسم میں بن کر وہ جاں رہے

یعنی ہمیں میں رہ کے وہ ہم سے نہاں رہے

میں جہاں ہوں ترے خیال میں ہوں

تو جہاں ہے مری نگاہ میں ہے

سبھی انداز حسن پیارے ہیں

ہم مگر سادگی کے مارے ہیں

پہلے شراب زیست تھی اب زیست ہے شراب

کوئی پلا رہا ہے پئے جا رہا ہوں میں

سب کچھ لٹا کے راہ محبت میں اہل دل

خوش ہیں کہ جیسے دولت کونین پا گئے

دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہے ہمیں

کتنی ظالم ہے تیری انگڑائی

مری ہستی ہے مری طرز تمنا اے دوست

خود میں فریاد ہوں میری کوئی فریاد نہیں

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں

دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن

تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا

نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں

ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا

گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی

بن جاؤں نہ بیگانۂ آداب محبت

اتنا نہ قریب آؤ مناسب تو یہی ہے

حسن کے ہر جمال میں پنہاں

میری رعنائی خیال بھی ہے

آغاز محبت کا انجام بس اتنا ہے

جب دل میں تمنا تھی اب دل ہی تمنا ہے

سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن

اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز

کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں

اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے

تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے

جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پر

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

حسیں تیری آنکھیں حسیں تیرے آنسو

یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

لیکن اپنا اپنا دامن

اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں

در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا

مری روداد غم وہ سن رہے ہیں

تبسم سا لبوں پر آ رہا ہے

ساز الفت چھڑ رہا ہے آنسوؤں کے ساز پر

مسکرائے ہم تو ان کو بد گمانی ہو گئی

کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے

ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانا ہے

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جن کے لیے مر بھی گئے ہم

وہ چل کر دو گام نہ آئے

وہ نظروں ہی نظروں میں سوالات کی دنیا

وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالم

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے

خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا

کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

غرق کر دے تجھ کو زاہد تیری دنیا کو خراب

کم سے کم اتنی تو ہر میکش کے پیمانے میں ہے

راحت بے خلش اگر مل بھی گئی تو کیا مزا

تلخئ غم بھی چاہئے بادۂ خوش گوار میں

بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر

وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے

دنیا یہ دکھی ہے پھر بھی مگر تھک کر ہی سہی سو جاتی ہے

تیرے ہی مقدر میں اے دل کیوں چین نہیں آرام نہیں

مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن

اک مسیحا نفس کی بات گئی

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا

بھلانا ہمارا مبارک مبارک

مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا

محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں

کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں

نگاہ یاس مری کام کر گئی اپنا

رلا کے اٹھے تھے وہ مسکرا کے بیٹھ گئے

وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا

کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے

طول غم حیات سے گھبرا نہ اے جگرؔ

ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو

Recitation

بولیے