Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Ghalib's Photo'

مرزا غالب

1797 - 1869 | دلی, انڈیا

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

عظیم شاعر۔ عالمی ادب میں اردو کی آواز۔ خواص و عوام دونوں میں مقبول۔

مرزا غالب کے اشعار

427.2K
Favorite

باعتبار

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ

وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے

دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی

لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا کیجیے ہاے ہاے کیوں

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ

ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

ان آبلوں سے پانو کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

تشریح

یہ غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ غرق کے معنی ڈوبنا۔ غرق دریا کے معنی ہیں دریا میں ڈوبنا رسوا ہونا کے معنی ہیں ذلیل ہونا۔

غالب نے اس شعر میں ایک خوبصورت خیال پیش کیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ اٹھا۔ پھر میری قبر بن گئی اور اس طرح سے میں ذلیل ہو گیا۔ کتنا اچھا تھا کہ اگر میں دریا ڈوب کے مرجاتا نہ میری لاش ملتی، نہ میرا جنازہ اٹھتا اور نہ میری قبر ہی بن جاتی۔ یہ تو ہوئے قریب کے معنی اصلی مراد غالب کی یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں اتنا رسوا ہوا ہوں کہ مرنے کے بعد بھی میری رسوائی نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔ یعنی جب میں مر گیا۔ لوگوں نے میرا جنازہ اٹھایا اور پھر ایک دوسرے سے پوچھا کہ کس کا جنازہ جا رہا ہے؟ پوچھنے پر جب معلوم ہوا تو بولے کہ ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کا جنازہ ہے؟ پھر جب میری قبر بن گئی تب لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے ؟ معلوم ہوا کہ غالب کی ہے پھر بولے ارے یہ اسی رسوائے زمانہ غالب کی قبر ہے۔ اس طرح سے غالب تا قیامت رسوا ہوتے رہیں گے۔ اسی لئے وہ اس خواہش کا اطہار کرتے ہیں کہ کاش ہماری موت دریا میں ڈوبنے سے ہوتی اور ہماری لاش دریا سے برآمد ہی نہ ہوتی۔

شفق سوپوری

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

تشریح

یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔

شفق سوپوری

نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے

پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں

پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز

سوائے بادۂ گلفام مشک بو کیا ہے

گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ

یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ

پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا

افسون انتظار تمنا کہیں جسے

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوز غم ہائے نہانی اور ہے

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

تشریح

مطالعہ، مشاہدہ اور غور و فکر سے حاصل کئے گئے علم کو آگاہی کہتے ہیں۔ دام شنیدن سماعت کا جال۔ عنقا، عرب دیومالا میں اک ایسا فرضی پرندہ ہے جو پرواز کی بلندی کے سبب آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا مسکن سورج کے غروب ہونے کی جگہ ہے۔ عنقا نایاب، نادرالوجود اور بےنظیر چیز کو بھی کہتے ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ کوئی کتنا بھی سمجھدار، عالم، فاضل اور توجہ سے کلام سننے والا کیوں نہ ہو، میرے کلام کا اصل مطلب اس کی گرفت سے باہر رہے گا۔ عالم تقریر کے دو معنی ہیں۔ ایک میرے کلام کی دنیا یعنی جہانِ معنی اور دوسرا وہ کیفیات جن میں کلام صادر ہوا۔ غالب کہتے ہیں کہ میرے اشعار میں خیال و معنی کی پرواز اتنی بلند اور بے نظیر ہے اور اس کی کیفیت اس قدر نامانوس ہے کہ اس کا آپ کے ہاتھ آنا محال ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی نایاب عنقا کو پکڑنے کے لئے جال بچھانے کا جتن کرے۔ میری شعری گفتگو جن کیفیات پر مبنی ہے، ان سے کوئی گزرا ہی نہیں تو پھر میرے مطلب کو کس طرح سمجھ پائے گا۔ اس کے لئے میرا مدعا مثل عنقا نایاب و نادر الوجود رہے گا۔ اس شعر میں غالب نے قاری یا سامع سے اپنے کلام کو نہ سمجھ پانے کا کوئی شکوہ نہیں کیا ہے، بلکہ اس سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ تمہارے علم و فضل (آگہی) پر مجھے کوئی شک نہیں۔ دراصل میں تصورات کی جس دنیا (عالم) میں رہتا ہوں وہ تمھاری فکری دنیا سے بہت مختلف ہے ۔ مجھ پر جو کیفیات طاری رہتی ہیں یعنی میں جس عالم میں رہتا ہوں اس میں کہی گئی باتیں اگر تم نہ سمجھ سکو تو اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں۔ جس طرح عنقا کو اس کی بلندیٔ پرواز کے سبب پکڑ پانا محال ہے، اسی طرح میرے مطالب تک پہنچنا تمھارے لئے ممکن نہیں۔ یہاں موسی اور خضر کے قصہ کو یا مولانا روم اور شمس تبریز کے معاملہ کو ذہن میں رکھیں تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی کہ غالب نے اس شعر میں کیا کہا ہے۔

محمّد آزم

بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

مضمحل ہو گئے قویٰ غالب

وہ عناصر میں اعتدال کہاں

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب

خون جگر ودیعت مژگان یار تھا

یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے

بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر

کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے

اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ

ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں

بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوار یار میں

فرماں رواۓ کشور ہندوستان ہے

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست

لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال

خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ کہ بہ ظاہر نگاہ سے کم ہے

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ

مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

جان تم پر نثار کرتا ہوں

میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم

میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

تماشا کہ اے محو آئینہ داری

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

بے نیازی تری عادت ہی سہی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے