Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shakeel Badayuni's Photo'

شکیل بدایونی

1916 - 1970 | ممبئی, انڈیا

معروف فلم گیت کار اور شاعر

معروف فلم گیت کار اور شاعر

شکیل بدایونی کے اشعار

99.6K
Favorite

باعتبار

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل

مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے

آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

ان کا ذکر ان کی تمنا ان کی یاد

وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

کیسے کہہ دوں کہ ملاقات نہیں ہوتی ہے

روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے

مجھے چھوڑ دے میرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر

یہ تری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی

دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی

وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے

یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں

مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک

مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

مجھے تو قید محبت عزیز تھی لیکن

کسی نے مجھ کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر

پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم

محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے

وہ ہم سے خفا ہیں ہم ان سے خفا ہیں

مگر بات کرنے کو جی چاہتا ہے

انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں

میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

چاہئے خود پہ یقین کامل

حوصلہ کس کا بڑھاتا ہے کوئی

تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو

آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح

اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی

نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے

یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی

ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات

آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا

بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ

آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے

کیا اثر تھا جذبۂ خاموش میں

خود وہ کھچ کر آ گئے آغوش میں

کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے

کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں

کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

بزدلی ہوگی چراغوں کو دکھانا آنکھیں

ابر چھٹ جائے تو سورج سے ملانا آنکھیں

کتنی دلکش ہیں تری تصویر کی رعنائیاں

لیکن اے پردہ نشیں تصویر پھر تصویر ہے

کل رات زندگی سے ملاقات ہو گئی

لب تھرتھرا رہے تھے مگر بات ہو گئی

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی

دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل

دل کی بربادیوں پہ نازاں ہوں

فتح پا کر شکست کھائی ہے

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں

جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں

دل کی طرف شکیلؔ توجہ ضرور ہو

یہ گھر اجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا

مشکل تھا کچھ تو عشق کی بازی کو جیتنا

کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے

ہمیں جن کی دید کی آس تھی وہ ملے تو راہ میں یوں ملے

میں نظر اٹھا کے تڑپ گیا وہ نظر اٹھا کے گزر گئے

پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی

دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی

کس سے جا کر مانگیے درد محبت کی دوا

چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے

تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا

کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر

مجھے آ گیا یقیں سا کہ یہی ہے میری منزل

سر راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پکارا

اٹھا جو مینا بدست ساقی رہی نہ کچھ تاب ضبط باقی

تمام مے کش پکار اٹھے یہاں سے پہلے یہاں سے پہلے

کوئی دل کش نظارہ ہو کوئی دلچسپ منظر ہو

طبیعت خود بہل جاتی ہے بہلائی نہیں جاتی

زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں

مجھ سے اب خون تمنا نہیں دیکھا جاتا

غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ

مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے

وہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں

بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں

وہ ہوا دے رہے ہیں دامن کی

ہائے کس وقت نیند آئی ہے

بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر

پی کے انسان ہوا جاتا ہے

Recitation

بولیے