Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوستی پر اشعار

دوستی کا جذبہ ایک بہت

پاک اور شفاف جذبہ ہے ۔ اس سے انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کو جاننے ، سمجھنے اور ایک دوسرے کیلئے جینے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ شاعروں نے اس اہم انسانی جذبے اور رشتے کو بہت پھیلاؤ کے ساتھ موضوع بنایا ہے ۔ دوستی پر کی جانے والی اس شاعری کے اور بھی کئی ڈائمینشن ہیں ۔ دوستی کب اور کن صورتوں میں دشمنی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے ؟ ہم سب اگرچہ اپنی عام زندگی میں ان حالتوں سے گزرتے ہیں لیکن شعوری طور پر نہ انہیں جان پاتے ہیں اور نہ سمجھ پاتے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور ان انجانی صورتوں سے واقفیت حاصل کیجئے ۔

عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے

دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے

ماہر القادری

آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں

دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں

لالہ مادھو رام جوہر

سنا ہے ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ دنیا میں

کہ جن سے ملیے تو تنہائی ختم ہوتی ہے

افتخار شفیع

تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے

ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے

کیف بھوپالی

خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا

کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر

ساقی فاروقی

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

حبیب جالب

شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ

ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

حمایت علی شاعر

توڑ کر آج غلط فہمی کی دیواروں کو

دوستو اپنے تعلق کو سنوارا جائے

سنتوش کھروڑکر

جب دوستی ہوتی ہے تو دوستی ہوتی ہے

اور دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا

گلزار

محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا

اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

بشیر بدر

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

خمار بارہ بنکوی

مجھے دوست کہنے والے ذرا دوستی نبھا دے

یہ مطالبہ ہے حق کا کوئی التجا نہیں ہے

شکیل بدایونی

دوست دل رکھنے کو کرتے ہیں بہانے کیا کیا

روز جھوٹی خبر وصل سنا جاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ

دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا

مرزا غالب

دوستی اور کسی غرض کے لئے

وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں

اسماعیل میرٹھی

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

حبیب جالب

نگاہ ناز کی پہلی سی برہمی بھی گئی

میں دوستی کو ہی روتا تھا دشمنی بھی گئی

مائل لکھنوی

مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے

نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

غمگین دہلوی

دوستی خواب ہے اور خواب کی تعبیر بھی ہے

رشتۂ عشق بھی ہے یاد کی زنجیر بھی ہے

نامعلوم

اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں

دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے

لالہ مادھو رام جوہر

دشمن سے ایسے کون بھلا جیت پائے گا

جو دوستی کے بھیس میں چھپ کر دغا کرے

سلیم صدیقی

مری وحشت مرے صحرا میں ان کو ڈھونڈھتی ہے

جو تھے دو چار چہرے جانے پہچانے سے پہلے

عقیل نعمانی

دوست دو چار نکلتے ہیں کہیں لاکھوں میں

جتنے ہوتے ہیں سوا اتنے ہی کم ہوتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

ذکر میرا آئے گا محفل میں جب جب دوستو

رو پڑیں گے یاد کر کے یار سب یاری مری

صدا انبالوی

دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

راحت اندوری

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

مرزا غالب

مجھے دشمن سے اپنے عشق سا ہے

میں تنہا آدمی کی دوستی ہوں

باقر مہدی

دشمنی نے سنا نہ ہووے گا

جو ہمیں دوستی نے دکھلایا

خواجہ میر درد

دوستی عام ہے لیکن اے دوست

دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

حفیظ ہوشیارپوری

میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں

فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا

جون ایلیا

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

خمار بارہ بنکوی

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن

اے جی جوش

سو بار تار تار کیا تو بھی اب تلک

ثابت وہی ہے دست و گریباں کی دوستی

شیخ ظہور الدین حاتم

میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی

مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی

احسان دانش

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

احمد فراز

دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو

میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا

امداد امام اثر

دوستی کو برا سمجھتے ہیں

کیا سمجھ ہے وہ کیا سمجھتے ہیں

نوح ناروی

کچھ سمجھ کر اس مۂ خوبی سے کی تھی دوستی

یہ نہ سمجھے تھے کہ دشمن آسماں ہو جائے گا

امداد امام اثر

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا

جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

جون ایلیا

دوستی بندگی وفا و خلوص

ہم یہ شمع جلانا بھول گئے

انجم لدھیانوی

پتھر تو ہزاروں نے مارے تھے مجھے لیکن

جو دل پہ لگا آ کر اک دوست نے مارا ہے

سہیل عظیم آبادی

بھول شاید بہت بڑی کر لی

دل نے دنیا سے دوستی کر لی

بشیر بدر

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

شکیل بدایونی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے