نیند پر اشعار
نیند اور خواب شاعری
میں بہت مرکزی موضوع کے طور پر نظر آتے ہیں ۔ ہجر میں نیند کا عنقا ہوجانا ، نیند آئے بھی تو محبوب کے خواب کا غائب ہوجانا اور اس طرح کی بھی بہت سی دلچسپ صورتیں اس شاعری میں موجود ہیں ۔
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
-
موضوعات : بے قراریاور 6 مزید
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
-
موضوعات : راتاور 1 مزید
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تشریح
یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔
شفق سوپوری
-
موضوع : موت
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
-
موضوع : جدائی
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
-
موضوع : خواب
آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
-
موضوع : یاد
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا رات بھر مصیبت ہے
سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے کی
جو نیند آئی ترے غم کی چھاؤں میں آئی
مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال
حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے
نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے
-
موضوعات : خواباور 2 مزید
نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی
صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں
-
موضوع : خواب
ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں
ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
شام سے ان کے تصور کا نشہ تھا اتنا
نیند آئی ہے تو آنکھوں نے برا مانا ہے
تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈھتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
-
موضوع : خواب
تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے
لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے
معلوم تھیں مجھے تری مجبوریاں مگر
تیرے بغیر نیند نہ آئی تمام رات
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
-
موضوعات : جدائیاور 3 مزید
بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا
-
موضوع : خواب
اب آؤ مل کے سو رہیں تکرار ہو چکی
آنکھوں میں نیند بھی ہے بہت رات کم بھی ہے
تنہائی سے آتی نہیں دن رات مجھے نیند
یارب مرا ہم خواب و ہم آغوش کہاں ہے
بہت کچھ تم سے کہنا تھا مگر میں کہہ نہ پایا
لو میری ڈائری رکھ لو مجھے نیند آ رہی ہے
دینے والے تو مجھے نیند نہ دے خواب تو دے
مجھ کو مہتاب سے آگے بھی کہیں جانا ہے
-
موضوع : خواب
موت برحق ہے ایک دن لیکن
نیند راتوں کو خوب آتی ہے
چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو
نیند پھر رات بھر نہ آئی آج
کبھی دکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں
کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے آ
-
موضوع : خواب
تمہاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی
ٹوٹتی رہتی ہے کچے دھاگے سی نیند
آنکھوں کو ٹھنڈک خوابوں کو گرانی دے
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
نیند آتی ہے اگر جلتی ہوئی آنکھوں میں
کوئی دیوانے کی زنجیر ہلا دیتا ہے
نیند کا کام گرچہ آنا ہے
میری آنکھوں میں پر نہیں آتی
جن کو نیندوں کی نہ ہو چادر نصیب
ان سے خوابوں کا حسیں بستر نہ مانگ
بڑی طویل ہے محشرؔ کسی کے ہجر کی بات
کوئی غزل ہی سناؤ کہ نیند آ جائے
-
موضوع : ہجر
کل رات جگاتی رہی اک خواب کی دوری
اور نیند بچھاتی رہی بستر مرے آگے
-
موضوع : خواب
نیند آنکھ میں بھری ہے کہاں رات بھر رہے
کس کے نصیب تم نے جگائے کدھر رہے
نیند ٹوٹی ہے تو احساس زیاں بھی جاگا
دھوپ دیوار سے آنگن میں اتر آئی ہے
-
موضوع : دھوپ
مومن میں اپنے نالوں کے صدقے کہ کہتے ہیں
اس کو بھی آج نیند نہ آئی تمام شب
کل وصل میں بھی نیند نہ آئی تمام شب
ایک ایک بات پر تھی لڑائی تمام شب
-
موضوع : وصال
میں اپنی انگشت کاٹتا تھا کہ بیچ میں نیند آ نہ جائے
اگرچہ سب خواب کا سفر تھا مگر حقیقت میں آ بسا ہوں
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
تیرے پہلو میں ذرا دیر کو سستا لوں گا
تجھ تک آ پہنچا اگر نیند میں چلتا ہوا میں
کہو تو کس طرح آوے وہاں نیند
جہاں خورشید رو ہو آ کے ہم خواب
اے شب خواب یہ ہنگام تحیر کیا ہے
خود کو گر نیند سے بیدار کیا ہے میں نے
-
موضوع : خواب