آدمی اور انسان پر 20 مشہور شعر
انسان کائنات کی تخلیق
کا سبب ہی نہیں بلکہ شاعری موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کے مرکز میں بھی انسان ہی موجود ہے۔ اردو شاعری خاص طور سے غزل کے اشعار میں انسان اپنی تمام نزاکتوں، نفاستوں اور خباثتوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ہر چند کہ یہ مخلوق ایک معمہ سے کم نہیں لیکن ہم یہاں انسان یا آدمی کے موضوع پر بیس بے حد مقبول اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔
ٹاپ ٢٠ سیریز
- 20 منتخب ترغیبی اشعار
- اخبارپر 20 منتخب اشعار
- ادا پر منتخب اشعار
- اداسی شاعری
- آدمی/انسان شاعری
- استقبال شاعری
- الوداعیہ شاعری
- انتظار شاعری
- آنسو پر20 منتخب اشعار
- آنکھ پر 20 منتخب اشعار
- انگڑائ پر 20 منتخب اشعار
- آئینہ پر 20 منتخب اشعار
- بارش پر 20 منتخب اشعار
- بوسے پر 20 منتخب اشعار
- پھول شاعری
- تصویر پر 20 منتخب اشعار
- تنہائی کے موضوع پر اشعار
- ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے 20منتخب اشعار
- جدائی پر 20 منتخب اشعار
- چاند پر 20 منتخب اشعار
- حسن شاعری
- خاموشی پر شاعری
- درد شاعری
- دعا پر 20 منتخب اشعار
- دل شاعری
- دنیا شاعری
- دھوکہ پر شاعری
- دوست/دوستی شاعری
- دیدار پر شاعری
- ریل گاڑی پر 20منتخب اشعار
- زلف شاعری
- زندگی شاعری
- سب سے زیادہ مقتبس 20منتخب اشعار
- سفر شاعری
- شراب شاعری
- عشق پر 20 منتخب اشعار
- کتاب شاعری
- لب پر شاعری
- مسکراہٹ شاعری
- ملاقات شاعری
- موت شاعری
- نشور واحدی کے 20 منتخب اشعار
- نئے سال پر منتخب شعر
- وصال شاعری
- وفا شاعری
- وقت شاعری
- یاد شاعری
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
-
موضوعات: آدمیاور 4 مزید
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
-
موضوعات: آدمیاور 1 مزید
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
تشریح
اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔
مرزا غالب
تشریح
اردو شاعری میں آدمی اور انسان کے فرق کو غالبؔ نے پہلی بار اجاگر کیا۔ اُن سے پہلے نظیراکبرآبادی نے ’’آدمی نامہ‘‘ نامہ میں آدمی کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی کو جان سے مارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
جو سُن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ان مصرعوں میں انسان کا کوئی تذکرہ نہیں۔ غالبؔ کے بعد مشہور شاعر حالیؔ نے کہا:
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس شعر سے آدمی غائب ہے۔ غالبؔ نے آدمی اور انسان میں فرق ضرور کیا لیکن کسی بھی طرح آدمی کے لئے حقارت اور انسان کے لئے عقیدت کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے پہلے ہی مصرع میں کہہ دیا کہ ہر کام آسان نہیں ہوتا اور دوسرے مصرع میں بتا دیا کہ انسان بننا تو آدمی کو ہی میسر نہیں۔ میسر ہونا کے معنی ہیں آسان ہونا۔ یہ دشوار ہونے کی ضد ہے۔ دو الفاظ جو معنی میں ایک دوسرے سے قریب ہوں یا پھر ایک دوسرے کے مخالف ہوں، ایک ہی شعر میں جمع کرنے سے شعر میں تناؤ اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ آدمی حیوانی سلسلے میں چوٹی پر ہے اور قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے پھر بھی اس کے لیے انسان بننا کوئی آسان کام نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر آدمی، انسان بننے کی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ قابل ملامت نہیں کیونکہ یہ کام ہے ہی اتنا مشکل۔ یہاں غالبؔ غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کے پتلے آدمی کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غالبؔ چیزوں کو جس بلند مقام سے دیکھتے ہیں وہاں ہر چھوٹا اور بڑا، اچھا اور برا سب ایک ڈرامے کے کردار بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کسی چیز کو عام آدمی کی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ ان کے یہاں زبردست حقیقت پسندی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنی غیر جذباتی حقیقت پسندی کو جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے انھیں کا کمال ہے۔
مرزا غالب
-
موضوع: انسان
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
تشریح
یہ میر تقی میر کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس شعر کی بنیاد ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ پر ہے۔ سہل کا مطلب آسان بھی ہے اور کم تر بھی۔ مگر اس شعر میں یہ لفظ کم تر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ فلک کا مطلب آسمان ہے اور فلک کے پھرنے سے مراد گشت کرنے کا بھی ہیں اور مارا مارا پھرنے کے بھی۔ مگر اس شعر میں فلک کے پھرنے سے غالب مراد مارامارا پھرنے کے ہی ہیں۔ خاک کا مطلب زمین ہے اور خاک کا لفظ میر نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ انسان کو خاک سے بنا ہوا یعنی خاکی کہا جاتا ہے۔
شعر میں خاص بات یہ کہ شاعر نے ’’فلک‘‘، ’’خاک‘‘ اور ’’انسان‘‘ کے الفاظ سے بہت کمال کا خیال پیش کیا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہوئے کہ اے انسان ! ہم جیسے لوگوں کو سہل مت سمجھو، ہم جیسے لوگ تب خاک سے پیدا ہوتے ہیں جب آسمان برسوں تک بھٹکتا ہے۔
لیکن شاعر اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم جیسے باکمال لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے بلکہ جب آسمان برسوں مارا مارا پھرتا ہے تب ہم جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کم تر یا کم مایہ مت جانو۔ یعنی جب آسمان برسوں تک ہم جیسے باکمال لوگوں کو پیدا کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے تب کہیں جا کر ہم خاک کے پردے سے پیدا ہوتے ہیں۔
اس شعر میں لفظ انسان سے دو مطلب برآمد ہوتے ہیں یعنی ایک یعنی باکمال، یا ہنر اور با صلاحیت آدمی۔ دوسرا انسانیت سے بھرپور آدمی۔
شفق سوپوری
تشریح
یہ میر تقی میر کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس شعر کی بنیاد ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ پر ہے۔ سہل کا مطلب آسان بھی ہے اور کم تر بھی۔ مگر اس شعر میں یہ لفظ کم تر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ فلک کا مطلب آسمان ہے اور فلک کے پھرنے سے مراد گشت کرنے کا بھی ہیں اور مارا مارا پھرنے کے بھی۔ مگر اس شعر میں فلک کے پھرنے سے غالب مراد مارامارا پھرنے کے ہی ہیں۔ خاک کا مطلب زمین ہے اور خاک کا لفظ میر نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ انسان کو خاک سے بنا ہوا یعنی خاکی کہا جاتا ہے۔
شعر میں خاص بات یہ کہ شاعر نے ’’فلک‘‘، ’’خاک‘‘ اور ’’انسان‘‘ کے الفاظ سے بہت کمال کا خیال پیش کیا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہوئے کہ اے انسان ! ہم جیسے لوگوں کو سہل مت سمجھو، ہم جیسے لوگ تب خاک سے پیدا ہوتے ہیں جب آسمان برسوں تک بھٹکتا ہے۔
لیکن شاعر اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم جیسے باکمال لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے بلکہ جب آسمان برسوں مارا مارا پھرتا ہے تب ہم جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کم تر یا کم مایہ مت جانو۔ یعنی جب آسمان برسوں تک ہم جیسے باکمال لوگوں کو پیدا کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے تب کہیں جا کر ہم خاک کے پردے سے پیدا ہوتے ہیں۔
اس شعر میں لفظ انسان سے دو مطلب برآمد ہوتے ہیں یعنی ایک یعنی باکمال، یا ہنر اور با صلاحیت آدمی۔ دوسرا انسانیت سے بھرپور آدمی۔
شفق سوپوری
-
موضوعات: خراجاور 2 مزید
گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
-
موضوعات: انساناور 1 مزید
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
-
موضوعات: انساناور 1 مزید
ہزار چہرے ہیں موجود آدمی غائب
یہ کس خرابے میں دنیا نے لا کے چھوڑ دیا
-
موضوعات: آدمیاور 2 مزید