Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nida Fazli's Photo'

ندا فاضلی

1938 - 2016 | ممبئی, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل، مقبول عام شاعر۔ ممتاز فلم نغمہ نگار اور نثر نگار، اپنی غزل ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور

ممتاز ترین جدید شاعروں میں شامل، مقبول عام شاعر۔ ممتاز فلم نغمہ نگار اور نثر نگار، اپنی غزل ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔۔۔۔‘ کے لئے مشہور

ندا فاضلی کے اشعار

159.2K
Favorite

باعتبار

رشتوں کا اعتبار وفاؤں کا انتظار

ہم بھی چراغ لے کے ہواؤں میں آئے ہیں

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

اب کسی سے بھی شکایت نہ رہی

جانے کس کس سے گلا تھا پہلے

بہت مشکل ہے بنجارہ مجازی

سلیقہ چاہئے آوارگی میں

غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں

پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے

سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں

کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا

خوش حال گھر شریف طبیعت سبھی کا دوست

وہ شخص تھا زیادہ مگر آدمی تھا کم

بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں

چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا

میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے

وقت بدلا تو تری رائے بدل جائے گی

بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں

یاد آتی ہے! چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں

یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ

مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا

نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے

اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں

یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں

زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا

اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا

سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا

ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی

پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی

اس اندھیرے میں تو ٹھوکر ہی اجالا دے گی

رات جنگل میں کوئی شمع جلانے سے رہی

ہم بھی کسی کمان سے نکلے تھے تیر سے

یہ اور بات ہے کہ نشانے خطا ہوئے

کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں

چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا

کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں

تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

ہمارا میرؔ جی سے متفق ہونا ہے نا ممکن

اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا

بدلا نہ اپنے آپ کو جو تھے وہی رہے

ملتے رہے سبھی سے مگر اجنبی رہے

اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے

روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو

جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

کچھ بھی بچا نہ کہنے کو ہر بات ہو گئی

آؤ کہیں شراب پئیں رات ہو گئی

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ

جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا

وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں

جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا

ضروری کیا ہر اک محفل میں بیٹھیں

تکلف کی روا داری سے بچئے

ہر جنگل کی ایک کہانی وہ ہی بھینٹ وہی قربانی

گونگی بہری ساری بھیڑیں چرواہوں کی جاگیریں ہیں

دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں

یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا

ممکن ہے سفر ہو آساں اب ساتھ بھی چل کر دیکھیں

کچھ تم بھی بدل کر دیکھو کچھ ہم بھی بدل کر دیکھیں

کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے

سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے

اپنے لہجے کی حفاظت کیجئے

شعر ہو جاتے ہیں نامعلوم بھی

گھی مصری بھی بھیج کبھی اخباروں میں

کئی دنوں سے چائے ہے کڑوی یا اللہ

پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک

جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا

فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے

وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے

گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم

ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں

چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے

خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا

مصروف گورکن کو بھی شاید پتہ نہیں

وہ خود کھڑا ہوا ہے قضا کی قطار میں

تم سے چھٹ کر بھی تمہیں بھولنا آسان نہ تھا

تم کو ہی یاد کیا تم کو بھلانے کے لئے

خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو

بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ

گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا

ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا

وہی ہمیشہ کا عالم ہے کیا کیا جائے

جہاں سے دیکھیے کچھ کم ہے کیا کیا جائے

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو

زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو

برندابن کے کرشن کنہیا اللہ ہو

بنسی رادھا گیتا گیا اللہ ہو

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی

خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے