فانی بدایونی کے اشعار
شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں
پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری
تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم
آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا
جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح
خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہیں کہو کہ تمہیں اپنا سمجھ کے کیا پایا
مگر یہی کہ جو اپنے تھے سب پرائے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
میں نے فانیؔ ڈوبتی دیکھی ہے نبض کائنات
جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی
وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یا کہتے تھے کچھ کہتے جب اس نے کہا کہئے
تو چپ ہیں کہ کیا کہئے کھلتی ہے زباں کوئی
کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ امید جواب میں گزری
دیر میں یا حرم میں گزرے گی
عمر تیرے ہی غم میں گزرے گی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
کوچۂ یار میں چل دیکھ لے جنت میری
نا مہربانیوں کا گلا تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی
اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے
-
موضوع : خط
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل آباد کا فانیؔ کوئی مفہوم نہیں
ہاں مگر جس میں کوئی حسرت برباد رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ
کیا کروگے وہ اگر یاد آیا
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
آخر اسی نے ہم کو آنکھیں دکھائیاں ہیں
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
اس آپ کی زمیں سے الگ آسماں سے دور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کس کو غم ہے جو کرے مرثیہ خوانی میری
رو رہی ہے مرے مرقد پہ جوانی میری
رونے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں فانیؔ
یہ اس کی گلی ہے تیرا غم خانہ نہیں ہے
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
اپنی ہی نگاہوں کا یہ نظارہ کہاں تک
اس مرحلۂ سعیٔ تماشا سے گزر جا
ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے
-
موضوع : امید
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
وہ صبح عید کا منظر ترے تصور میں
وہ دل میں آ کے ادا تیرے مسکرانے کی
کسی کو کیا مرے سود و زیاں سے
گرے کیوں برق بچ کر آشیاں سے
زمانہ بر سر آزار تھا مگر فانیؔ
تڑپ کے ہم نے بھی تڑپا دیا زمانے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روح ارباب محبت کی لرز جاتی ہے
تو پشیمان نہ ہو اپنی جفا یاد نہ کر
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا
کس خرابی سے زندگی فانیؔ
اس جہان خراب میں گزری
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز
میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز
جلوہ و دل میں فرق نہیں جلوے کو ہی اب دل کہتے ہیں
یعنی عشق کی ہستی کا آغاز تو ہے انجام نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے
کیوں چارہ ساز تجھ کو امید شفا بھی ہے
آ گئی ہے ترے بیمار کے منہ پر رونق
جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے
-
موضوع : زلف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک عالم کو دیکھتا ہوں میں
یہ ترا دھیان ہے مجسم کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا
جور کو جور بھی اب کیا کہیے
خود وہ تڑپا کے تڑپ جاتے ہیں
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر
جس کی تصویر ہے خیال اپنا