Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fani Badayuni's Photo'

فانی بدایونی

1879 - 1941 | بدایوں, انڈیا

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں، اپنی شاعری کے اداس رنگ کے لیے معروف

فانی بدایونی کے اشعار

31.2K
Favorite

باعتبار

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں

پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری

تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم

آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا

جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح

خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں

تمہیں کہو کہ تمہیں اپنا سمجھ کے کیا پایا

مگر یہی کہ جو اپنے تھے سب پرائے ہوئے

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

میں نے فانیؔ ڈوبتی دیکھی ہے نبض کائنات

جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے

مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی

وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا

یا کہتے تھے کچھ کہتے جب اس نے کہا کہئے

تو چپ ہیں کہ کیا کہئے کھلتی ہے زباں کوئی

کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر

کچھ امید جواب میں گزری

دیر میں یا حرم میں گزرے گی

عمر تیرے ہی غم میں گزرے گی

اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ

کوچۂ یار میں چل دیکھ لے جنت میری

نا مہربانیوں کا گلا تم سے کیا کریں

ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں

پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی

اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی

ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب

اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے

روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر

کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے

دل آباد کا فانیؔ کوئی مفہوم نہیں

ہاں مگر جس میں کوئی حسرت برباد رہے

اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ

کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

جس دل ربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں

آخر اسی نے ہم کو آنکھیں دکھائیاں ہیں

جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور

اس آپ کی زمیں سے الگ آسماں سے دور

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں

جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

کس کو غم ہے جو کرے مرثیہ خوانی میری

رو رہی ہے مرے مرقد پہ جوانی میری

رونے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں فانیؔ

یہ اس کی گلی ہے تیرا غم خانہ نہیں ہے

اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے

مجھ کو خیال یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو

موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا نہ رہا

اپنی ہی نگاہوں کا یہ نظارہ کہاں تک

اس مرحلۂ سعیٔ تماشا سے گزر جا

ترک امید بس کی بات نہیں

ورنہ امید کب بر آئی ہے

صور و منصور و طور ارے توبہ

ایک ہے تیری بات کا انداز

مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے

عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے

وہ صبح عید کا منظر ترے تصور میں

وہ دل میں آ کے ادا تیرے مسکرانے کی

کسی کو کیا مرے سود و زیاں سے

گرے کیوں برق بچ کر آشیاں سے

زمانہ بر سر آزار تھا مگر فانیؔ

تڑپ کے ہم نے بھی تڑپا دیا زمانے کو

روح ارباب محبت کی لرز جاتی ہے

تو پشیمان نہ ہو اپنی جفا یاد نہ کر

جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ

مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

کرم بے حساب چاہا تھا

ستم بے حساب میں گزری

بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا

کس خرابی سے زندگی فانیؔ

اس جہان خراب میں گزری

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم

بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز

میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز

جلوہ و دل میں فرق نہیں جلوے کو ہی اب دل کہتے ہیں

یعنی عشق کی ہستی کا آغاز تو ہے انجام نہیں

اس درد کا علاج اجل کے سوا بھی ہے

کیوں چارہ ساز تجھ کو امید شفا بھی ہے

آ گئی ہے ترے بیمار کے منہ پر رونق

جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا

میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ

رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

ایک عالم کو دیکھتا ہوں میں

یہ ترا دھیان ہے مجسم کیا

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا

بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا

جور کو جور بھی اب کیا کہیے

خود وہ تڑپا کے تڑپ جاتے ہیں

مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات

مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر

جس کی تصویر ہے خیال اپنا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے