امیر مینائی کے اشعار
ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانا دل کا
امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
آئینہ دیکھئے گا ذرا دیکھ بھال کے
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
کہتے ہو کہ ہم درد کسی کا نہیں سنتے
میں نے تو رقیبوں سے سنا اور ہی کچھ ہے
ہو گیا بند در میکدہ کیا قہر ہوا
شوق پا بوس حسیناں جو تجھے تھا اے دل
طول شب فراق کا قصہ نہ پوچھئے
محشر تلک کہوں میں اگر مختصر کہوں
سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا
اپنی محفل سے عبث ہم کو اٹھاتے ہیں حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں
پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں
فرقت میں منہ لپیٹے میں اس طرح پڑا ہوں
جس طرح کوئی مردہ لپٹا ہوا کفن میں
باتیں ناصح کی سنیں یار کے نظارے کیے
آنکھیں جنت میں رہیں کان جہنم میں رہے
-
موضوع : ہزار داستان عشق
آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا
مانی ہیں میں نے سیکڑوں باتیں تمام عمر
آج آپ ایک بات مری مان جائیے
جب کہیں دو گز زمیں دیکھی خودی سمجھا میں گور
جب نئی دو چادریں دیکھیں کفن یاد آ گیا
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے مے کدے میں رات دن رحمت برستی ہے
کسی رئیس کی محفل کا ذکر ہی کیا ہے
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھیڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جل اٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
ملی ہے دختر رز لڑ جھگڑ کے قاضی سے
جہاد کر کے جو عورت ملے حرام نہیں
سمجھتا ہوں سبب کافر ترے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد
یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد
نہ واعظ ہجو کر ایک دن دنیا سے جانا ہے
ارے منہ ساقی کوثر کو بھی آخر دکھانا ہے
جی لگے آپ کا ایسا کہ کبھی جی نہ بھرے
دل لگا کر جو سنیں آپ فسانہ دل کا
گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی بھی لے زاہد
ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں
کعبہ بھی ہم گئے نہ گیا پر بتوں کا عشق
اس درد کی خدا کے بھی گھر میں دوا نہیں
ہاتھ رکھ کر میرے سینے پہ جگر تھام لیا
تم نے اس وقت تو گرتا ہوا گھر تھام لیا
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
خوشامد اے دل بے تاب اس تصویر کی کب تک
یہ بولا چاہتی ہے پر نہ بولے گی نہ بولی ہے
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
لچک ہے شاخوں میں جنبش ہوا سے پھولوں میں
بہار جھول رہی ہے خوشی کے پھولوں میں
ہم جو پہنچے تو لب گور سے آئی یہ صدا
آئیے آئیے حضرت بہت آزاد رہے
خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی
برے ہوتے ہو اچھے ہو کے یہ کیا بد زبانی ہے
امیرؔ جاتے ہو بت خانے کی زیارت کو
پڑے گا راہ میں کعبہ سلام کر لینا
ہلال و بدر دونوں میں امیرؔ ان کی تجلی ہے
یہ خاکہ ہے جوانی کا وہ نقشہ ہے لڑکپن کا
گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجھلا کر کہا
واہ سر چڑھنے لگی پاؤں کی ٹھکرائی ہوئی
چھیڑ دیکھو مری میت پہ جو آئے تو کہا
تم وفاداروں میں ہو یا میں وفاداروں میں ہوں
خون ناحق کہیں چھپتا ہے چھپائے سے امیرؔ
کیوں مری لاش پہ بیٹھے ہیں وہ دامن ڈالے
اللہ ری نزاکت جاناں کہ شعر میں
مضموں بندھا کمر کا تو درد کمر ہوا
جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے
آبرو شرط ہے انساں کے لیے دنیا میں
نہ رہی آب جو باقی تو ہے گوہر پتھر