امیر مینائی کے اشعار
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو
آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
مانگ لوں تجھ سے تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھیڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
کسی رئیس کی محفل کا ذکر ہی کیا ہے
خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
تشریح
اس شعر میں غضب کا چونچال ہے۔ یہی چونچال اردو غزل کی روایت کا خاصہ ہے۔ آنکھیں دکھانا ذو معنی ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ صرف آنکھیں دکھاتے ہو یعنی محض آنکھوں کا نظارہ کراتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ صرف غصہ کرتے ہو کیونکہ آنکھیں دکھانا محاورہ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں جیسے گھور کر دیکھنا، ناراضگی کی نظر سے دیکھنا، گھرکی دینا، اشارہ و کنایہ کرنا، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرنا۔ مگر شعر میں جو طنزیہ پیرایہ دکھائی دیتا ہے اس کی مناسبت سے آنکھیں دکھانے کو گھرکی دینے یعنی غصے سے دیکھنے سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔
جوبن کے کئی معنی ہیں جیسے حسن و جمال، چڑھتی جوانی، عورت کا سینہ یعنی پستان۔ جب یہ کہا کہ وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے تو مراد سینے سے ہی ہے کیونکہ جب آنکھ دکھائی تو ظاہر ہے کہ چہرہ بھی دکھایا اور جب آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو گویا چڑھتی جوانی کا نظارہ بھی ہوا۔ اگر کوئی چیز جو شاعر کی دانست میں اچھامال ہے اور جسے باندھ کے رکھا گیا ہے تو وہ محبوب کا سینہ ہی ہوسکتا ہے۔
اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ تم مجھے صرف غصے سے آنکھیں دکھاتے ہو اور جو چیز دیکھنے کا میں متمنی ہوں اسے الگ سے باندھ کر رکھا ہے۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں
کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں
جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد
یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد
ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں
تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں
-
موضوع : دیدار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
آئینہ دیکھئے گا ذرا دیکھ بھال کے
مانی ہیں میں نے سیکڑوں باتیں تمام عمر
آج آپ ایک بات مری مان جائیے
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
-
موضوع : جفا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں
خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی
برے ہوتے ہو اچھے ہو کے یہ کیا بد زبانی ہے
بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے
دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر
پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش
مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری
اللہ رے اس گل کی کلائی کی نزاکت
بل کھا گئی جب بوجھ پڑا رنگ حنا کا
آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح
سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
سمجھتا ہوں سبب کافر ترے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے مے کدے میں رات دن رحمت برستی ہے
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
کس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیرؔ
وہ مرا گھر ہے رہے جس میں محبت میری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے