Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ameer Minai's Photo'

امیر مینائی

1829 - 1900 | حیدر آباد, انڈیا

داغ دہلوی کے ہم عصر۔ اپنی غزل ’ سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘ کے لئے مشہور ہیں

داغ دہلوی کے ہم عصر۔ اپنی غزل ’ سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘ کے لئے مشہور ہیں

امیر مینائی کے اشعار

86.5K
Favorite

باعتبار

تم کو آتا ہے پیار پر غصہ

مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں

ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے

گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ

قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو

ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو

آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن

مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے

تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر

سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر

کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں

شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر

ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری

کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

مانگ لوں تجھ سے تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے

سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے

آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب

وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے

تشریح

اس شعر میں غضب کا چونچال ہے۔ یہی چونچال اردو غزل کی روایت کا خاصہ ہے۔ آنکھیں دکھانا ذو معنی ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ صرف آنکھیں دکھاتے ہو یعنی محض آنکھوں کا نظارہ کراتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ صرف غصہ کرتے ہو کیونکہ آنکھیں دکھانا محاورہ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں جیسے گھور کر دیکھنا، ناراضگی کی نظر سے دیکھنا، گھرکی دینا، اشارہ و کنایہ کرنا، آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرنا۔ مگر شعر میں جو طنزیہ پیرایہ دکھائی دیتا ہے اس کی مناسبت سے آنکھیں دکھانے کو گھرکی دینے یعنی غصے سے دیکھنے سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے۔

جوبن کے کئی معنی ہیں جیسے حسن و جمال، چڑھتی جوانی، عورت کا سینہ یعنی پستان۔ جب یہ کہا کہ وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے تو مراد سینے سے ہی ہے کیونکہ جب آنکھ دکھائی تو ظاہر ہے کہ چہرہ بھی دکھایا اور جب آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو گویا چڑھتی جوانی کا نظارہ بھی ہوا۔ اگر کوئی چیز جو شاعر کی دانست میں اچھامال ہے اور جسے باندھ کے رکھا گیا ہے تو وہ محبوب کا سینہ ہی ہوسکتا ہے۔

اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ تم مجھے صرف غصے سے آنکھیں دکھاتے ہو اور جو چیز دیکھنے کا میں متمنی ہوں اسے الگ سے باندھ کر رکھا ہے۔

شفق سوپوری

ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو

نہ چھیڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو

کسی رئیس کی محفل کا ذکر ہی کیا ہے

خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے

فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا

کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا

جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ

اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے

امیرؔ اب ہچکیاں آنے لگی ہیں

کہیں میں یاد فرمایا گیا ہوں

ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم بھی ہیں

تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں

کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد

یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد

جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ

حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ

اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر

میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا

مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے

آئینہ دیکھئے گا ذرا دیکھ بھال کے

مانی ہیں میں نے سیکڑوں باتیں تمام عمر

آج آپ ایک بات مری مان جائیے

پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا

پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا

وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں

میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں

تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے

سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی

برے ہوتے ہو اچھے ہو کے یہ کیا بد زبانی ہے

آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح

سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا

اللہ رے اس گل کی کلائی کی نزاکت

بل کھا گئی جب بوجھ پڑا رنگ حنا کا

مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا

یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں

بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے

دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا

میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش

مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری

میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری

شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو

کبھی فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی

مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی

آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

یہ بھی اک بات ہے عداوت کی

روزہ رکھا جو ہم نے دعوت کی

سمجھتا ہوں سبب کافر ترے آنسو نکلنے کا

دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

باقی نہ دل میں کوئی بھی یا رب ہوس رہے

چودہ برس کے سن میں وہ لاکھوں برس رہے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگار

سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے

لطف آنے لگا جفاؤں میں

وہ کہیں مہرباں نہ ہو جائے

تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے

ہمارے مے کدے میں رات دن رحمت برستی ہے

وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے

ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

قریب ہے یار روز محشر چھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے