Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھر پر اشعار

گھر کے مضمون کی زیادہ

تر صورتیں نئی زندگی کے عذاب کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔ بہت سی مجبوریوں کے تحت ایک بڑی مخلوق کے حصے میں بے گھری آئی ۔ اس شاعری میں آپ دیکھیں گے کہ گھر ہوتے ہوئے بے گھری کا دکھ کس طرح اندر سے زخمی کئے جارہا ہے اور روح کا آزار بن گیا ہے ۔ ایک حساس شخص بھرے پرے گھر میں کیسے تنہائی کا شکار ہوتا ہے، یہ ہم سب کا اجتماعی دکھ ہے اس لئے اس شاعری میں جگہ جگہ خود اپنی ہی تصویریں نظر آتی ہیں ۔

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخار عارف

اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے

میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا

نصیر ترابی

کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا

یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں

کفیل آزر امروہوی

شام کو تیرا ہنس کر ملنا

دن بھر کی اجرت ہوتی ہے

عشرت آفریں

سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں

کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا

ندا فاضلی

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

مرزا غالب

اک گھر بنا کے کتنے جھمیلوں میں پھنس گئے

کتنا سکون بے سر و سامانیوں میں تھا

ریاض مجید

رات پڑے گھر جانا ہے

صبح تلک مر جانا ہے

محمد علوی

مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں

اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا

بیدل حیدری

بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا

گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا

علیم مسرور

ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا

پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

راجیندر منچندا بانی

ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے

خود کو گھر سے نکال رکھا ہے

اظہر ادیب

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

عرفان صدیقی

مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں

میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں

منیر نیازی

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر امروہوی

گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں

چلو کہ لوٹ کے ہم اپنے اپنے گھر جائیں

جمال اویسی

گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو

دیواروں نے گھیر لیا ہے

محمد علوی

اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی

وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا

جوش ملیح آبادی

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف

اپنا گھر آنے سے پہلے

اتنی گلیاں کیوں آتی ہیں

محمد علوی

زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا

لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے

اختر ہوشیارپوری

کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے

کسی کی آنکھ میں رہ کر سنور گئے ہوتے

بشیر بدر

شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں

میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں

محمد علوی

پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

ندا فاضلی

نئی نہیں ہے یہ تنہائی میرے حجرے کی

مرض ہو کوئی بھی ہے چارہ گر سے ڈر جانا

وجے شرما

میں اپنے گھر میں ہوں گھر سے گئے ہوؤں کی طرح

مرے ہی سامنے ہوتا ہے تذکرہ میرا

مظفر وارثی

آنگن میں یہ رات کی رانی سانپوں کا گھر کاٹ اسے

کمرہ البتہ سونا ہے کونے میں گلدان لگا

مظفر حنفی

وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی

ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم

والی آسی

اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ

ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا

نظیر اکبرآبادی

درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں

سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے

بخش لائلپوری

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں

شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی

کچھ بھی ہوں دلی کے کوچے

تجھ بن مجھ کو گھر کاٹے گا

مظفر حنفی

سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ

تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

احمد محفوظ

اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے

مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن

ساقی فاروقی

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے

خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے

اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

شہریار

کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں کئی برسوں سے

ہر جگہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا

ندا فاضلی

یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا

ابھی سے لوٹ چلو گھر ابھی اجالا ہے

اختر سعید خان

پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا

وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا

احمد مشتاق

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

شہپر رسول

میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ

دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے

غلام حسین ساجد

کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ

ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا

راجیندر منچندا بانی

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں

اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا

کیف بھوپالی

در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا

گھر کسے کہتے ہیں کیا چیز ہے بے گھر ہونا

سلیم احمد

غیر چہرے اجنبی ماحول مبہم سے نقوش

میں جہاں پہنچا وہی میرا وطن ثابت ہوا

عقیل نعمانی

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے

یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا

مظہر امام

ملا نہ گھر سے نکل کر بھی چین اے زاہدؔ

کھلی فضا میں وہی زہر تھا جو گھر میں تھا

ابو المجاہد زاہد

اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو

محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

محبوب خزاں

نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک

مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے

عبد الاحد ساز

ان دنوں گھر سے عجب رشتہ تھا

سارے دروازے گلے لگتے تھے

محمد علوی

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے