گھر پر اشعار
گھر کے مضمون کی زیادہ
تر صورتیں نئی زندگی کے عذاب کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔ بہت سی مجبوریوں کے تحت ایک بڑی مخلوق کے حصے میں بے گھری آئی ۔ اس شاعری میں آپ دیکھیں گے کہ گھر ہوتے ہوئے بے گھری کا دکھ کس طرح اندر سے زخمی کئے جارہا ہے اور روح کا آزار بن گیا ہے ۔ ایک حساس شخص بھرے پرے گھر میں کیسے تنہائی کا شکار ہوتا ہے، یہ ہم سب کا اجتماعی دکھ ہے اس لئے اس شاعری میں جگہ جگہ خود اپنی ہی تصویریں نظر آتی ہیں ۔
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
-
موضوع : مشہور اشعار
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے
میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا
کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
شام کو تیرا ہنس کر ملنا
دن بھر کی اجرت ہوتی ہے
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
-
موضوعات : جستجواور 2 مزید
اک گھر بنا کے کتنے جھمیلوں میں پھنس گئے
کتنا سکون بے سر و سامانیوں میں تھا
رات پڑے گھر جانا ہے
صبح تلک مر جانا ہے
مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں
اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے
خود کو گھر سے نکال رکھا ہے
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : شام
گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں
چلو کہ لوٹ کے ہم اپنے اپنے گھر جائیں
گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو
دیواروں نے گھیر لیا ہے
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
اپنا گھر آنے سے پہلے
اتنی گلیاں کیوں آتی ہیں
زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا
لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے
شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں
-
موضوعات : درختاور 1 مزید
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
نئی نہیں ہے یہ تنہائی میرے حجرے کی
مرض ہو کوئی بھی ہے چارہ گر سے ڈر جانا
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
میں اپنے گھر میں ہوں گھر سے گئے ہوؤں کی طرح
مرے ہی سامنے ہوتا ہے تذکرہ میرا
آنگن میں یہ رات کی رانی سانپوں کا گھر کاٹ اسے
کمرہ البتہ سونا ہے کونے میں گلدان لگا
وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی
ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم
اکیلا اس کو نہ چھوڑا جو گھر سے نکلا وہ
ہر اک بہانے سے میں اس صنم کے ساتھ رہا
-
موضوع : تنہائی
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
-
موضوع : ہجرت
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
کچھ بھی ہوں دلی کے کوچے
تجھ بن مجھ کو گھر کاٹے گا
سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ
تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
-
موضوع : شہر
اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
کس سے پوچھوں کہ کہاں گم ہوں کئی برسوں سے
ہر جگہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے مجھے گھر میرا
یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا
ابھی سے لوٹ چلو گھر ابھی اجالا ہے
پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ
دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے
-
موضوع : قسمت
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا
-
موضوع : تنہائی
کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا
-
موضوع : بارش
در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا
گھر کسے کہتے ہیں کیا چیز ہے بے گھر ہونا
غیر چہرے اجنبی ماحول مبہم سے نقوش
میں جہاں پہنچا وہی میرا وطن ثابت ہوا
ملا نہ گھر سے نکل کر بھی چین اے زاہدؔ
کھلی فضا میں وہی زہر تھا جو گھر میں تھا
-
موضوع : سکون
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
-
موضوع : شام
نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک
مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے