Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وفا پر اشعار

وفا پر شاعری بھی زیادہ

تر بے وفائی کی ہی صورتوں کو موضوع بناتی ہے ۔ وفادارعاشق کے علاوہ اور ہے کون ۔ اور یہ وفادار کردار ہر طرف سے بے وفائی کا نشانہ بنتا ہے ۔ یہ شاعری ہم کو وفاداری کی ترغیب بھی دیتی ہے اور بے وفائی کے دکھ جھیلنے والوں کے زخمی احساسات سے واقف بھی کراتی ہے ۔

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

احمد فراز

وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے

تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا

داغؔ دہلوی

انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی

مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی

نشور واحدی

الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو

ہر بات میں لذت ہے اگر دل میں مزا ہو

امیر مینائی

وفا اخلاص قربانی محبت

اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

جون ایلیا

بے وفائی پہ تیری جی ہے فدا

قہر ہوتا جو باوفا ہوتا

میر تقی میر

وفا جس سے کی بے وفا ہو گیا

جسے بت بنایا خدا ہو گیا

حفیظ جالندھری

کیوں پشیماں ہو اگر وعدہ وفا ہو نہ سکا

کہیں وعدے بھی نبھانے کے لئے ہوتے ہیں

عبرت مچھلی شہری

ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا

جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں

بشیر بدر

آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس

میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے

بشیر فاروقی

دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں

دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں

حفیظ بنارسی

وفاؤں کے بدلے جفا کر رہے ہیں

میں کیا کر رہا ہوں وہ کیا کر رہے ہیں

بہزاد لکھنوی

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

جگر مراد آبادی

اڑ گئی یوں وفا زمانے سے

کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں

داغؔ دہلوی

محبت عداوت وفا بے رخی

کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے

بشیر بدر

وفا کی خیر مناتا ہوں بے وفائی میں بھی

میں اس کی قید میں ہوں قید سے رہائی میں بھی

افتخار عارف

مجھ سے کیا ہو سکا وفا کے سوا

مجھ کو ملتا بھی کیا سزا کے سوا

حفیظ جالندھری

میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا

گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

قتیل شفائی

کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد

یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد

امیر مینائی

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا

وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

الطاف حسین حالی

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

چراغ حسن حسرت

یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پاؤں نازک

نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

خمار بارہ بنکوی

وہ کہتے ہیں ہر چوٹ پر مسکراؤ

وفا یاد رکھو ستم بھول جاؤ

کلیم عاجز

کام آ سکیں نہ اپنی وفائیں تو کیا کریں

اس بے وفا کو بھول نہ جائیں تو کیا کریں

اختر شیرانی

ہم نے بے انتہا وفا کر کے

بے وفاؤں سے انتقام لیا

آل رضا رضا

عشق پابند وفا ہے نہ کہ پابند رسوم

سر جھکانے کو نہیں کہتے ہیں سجدہ کرنا

آسی الدنی

برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا

یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا

آشفتہ چنگیزی

یہ کیا کہ تم نے جفا سے بھی ہاتھ کھینچ لیا

مری وفاؤں کا کچھ تو صلہ دیا ہوتا

عبد الحمید عدم

وفا نظر نہیں آتی کہیں زمانے میں

وفا کا ذکر کتابوں میں دیکھ لیتے ہیں

حفیظ بنارسی

تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے

جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی

خلیل الرحمن اعظمی

مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے

سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں

احمد مشتاق

کبھی کی تھی جو اب وفا کیجئے گا

مجھے پوچھ کر آپ کیا کیجئے گا

حسرتؔ موہانی

بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت

وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں

افتخار عارف

جاؤ بھی کیا کرو گے مہر و وفا

بارہا آزما کے دیکھ لیا

داغؔ دہلوی

نہ کریں آپ وفا ہم کو کیا

بے وفا آپ ہی کہلائیے گا

وزیر علی صبا لکھنؤی

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ

مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

قتیل شفائی

تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی

کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے

حمایت علی شاعر

جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی

سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا

فیض احمد فیض

یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں

یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں

اسماعیل میرٹھی

کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا

مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا

داغؔ دہلوی

دوستی بندگی وفا و خلوص

ہم یہ شمع جلانا بھول گئے

انجم لدھیانوی

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے

وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے

احسان دانش

امید ان سے وفا کی تو خیر کیا کیجے

جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح

آتش بہاولپوری

فریب کھانے کو پیشہ بنا لیا ہم نے

جب ایک بار وفا کا فریب کھا بیٹھے

احمد ندیم قاسمی

وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں

تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ

غلام محمد قاصر

اس بے وفا سے کر کے وفا مر مٹا رضاؔ

اک قصۂ طویل کا یہ اختصار ہے

آل رضا رضا

جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے

وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا

عزیز حامد مدنی

تم جفا پر بھی تو نہیں قائم

ہم وفا عمر بھر کریں کیوں کر

بیدل عظیم آبادی

کیا کہے گا کبھی ملنے بھی اگر آئے گا وہ

اب وفاداری کی قسمیں تو نہیں کھائے گا وہ

اجمل سراج

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم

شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

محبوب خزاں
بولیے