Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Faraz's Photo'

احمد فراز

1931 - 2008 | اسلام آباد, پاکستان

بے انتہا مقبول پاکستانی شاعر، اپنی رومانی اوراحتجاجی شاعری کے لئے مشہور

بے انتہا مقبول پاکستانی شاعر، اپنی رومانی اوراحتجاجی شاعری کے لئے مشہور

احمد فراز کے اشعار

351.2K
Favorite

باعتبار

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے

اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر

جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں

کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا

کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے

اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے

ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب

اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے

جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے

کچھ اس طرح سے گزاری ہے زندگی جیسے

تمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں

دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

تیری باتیں ہی سنانے آئے

دوست بھی دل ہی دکھانے آئے

تو محبت سے کوئی چال تو چل

ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ

کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں

چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا

سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی

اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم

یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں

یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ

میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی

ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں

پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

اب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو

آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا

مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا

سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا

کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے

کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے

اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں

کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے

ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں

اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے

یہ کن نظروں سے تو نے آج دیکھا

کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا

وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا

مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر

یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں

یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے

کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا

اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فرازؔ کب تک

جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے

جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے

بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب

کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے

سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے

زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا

لو پھر ترے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر

احمد فرازؔ تجھ سے کہا نہ بہت ہوا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے