Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یاد پر اشعار

یاد شاعری کا بنیادی

موضوع رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناسٹلجیائی کیفیت تخلیقی اذہان کو زیادہ بھاتی ہے ۔ یہ یاد محبوب کی بھی ہے اس کے وعدوں کی بھی اور اس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحموں کی بھی۔ اس میں ایک کسک بھی ہے اور وہ لطف بھی جو حال کی تلخی کو قابل برداشت بنا دیتا ہے ۔ یاد کے موضوع کو شاعروں نے کن کن صورتوں میں برتا ہے اور یاد کی کن کن نامعلوم کیفیتوں کو زبان دی ہے اس کا اندازہ ان شعروں سے ہوتا ہے ۔

ہمیں یاد رکھنا ہمیں یاد کرنا

اگر کوئی تازہ ستم یاد آئے

حفیظ جونپوری

کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے

کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

منور رانا

یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں

دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

شہزاد احمد

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

وزیر علی صبا لکھنؤی

ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی

آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی

اقبال اشہر

ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں

افتخار عارف

آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی

ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی

جگر مراد آبادی

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی

کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

جون ایلیا

بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں

تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا

حفیظ جالندھری

اے مظفر کس لئے بھوپال یاد آنے لگا

کیا سمجھتے تھے کہ دلی میں نہ ہوگا آسماں

مظفر حنفی

کہیں یہ ترک محبت کی ابتدا تو نہیں

وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے

حفیظ ہوشیارپوری

تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں

ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا

بہادر شاہ ظفر

وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا

لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح

مصور سبزواری

ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں

ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

راہی معصوم رضا

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے

محمد رفیع سودا

یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر

تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا

خلیل الرحمن اعظمی

اجملؔ سراج ہم اسے بھول ہوئے تو ہیں

کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا

اجمل سراج

رہ رہ کے کوندتی ہیں اندھیرے میں بجلیاں

تم یاد کر رہے ہو کہ یاد آ رہے ہو تم

حیرت گونڈوی

جس میں ہو یاد بھی تری شامل

ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

فراق گورکھپوری

نہ حالت میری کچھ کہنا نہ مطلب نامہ بر کہنا

جو ممکن ہو تو یہ کہنا تمہاری یاد آتی ہے

جلیل مانک پوری

یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں

میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی

خورشید احمد جامی

کر کچھ ایسا کہ تجھے یاد رکھوں

بھول جانے کا تقاضا ہی سہی

جواد شیخ

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ

نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

میر تقی میر

تعاقب میں ہے میرے یاد کس کی

میں کس کو بھول جانا چاہتا ہوں

کوثر مظہری

مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا

نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے

داغؔ دہلوی

گزر جائیں گے جب دن گزرے عالم یاد آئیں گے

ہمیں تم یاد آؤ گے تمہیں ہم یاد آئیں گے

کلیم عاجز

بسی ہے سوکھے گلابوں کی بات سانسوں میں

کوئی خیال کسی یاد کے حصار میں ہے

خالدہ عظمی

یاد میں خواب میں تصور میں

آ کہ آنے کے ہیں ہزار طریق

بیان میرٹھی

تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں

جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

بیخود دہلوی

رنگ دل رنگ نظر یاد آیا

تیرے جلووں کا اثر یاد آیا

باقی صدیقی

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

خمار بارہ بنکوی

رلائے گی مری یاد ان کو مدتوں صاحب

کریں گے بزم میں محسوس جب کمی میری

شیخ ابراہیم ذوقؔ

وہ مل نہ سکے یاد تو ہے ان کی سلامت

اس یاد سے بھی ہم نے بہت کام لیا ہے

کوثر نیازی

خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے

وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے

حسن نعیم

گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے

ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے

آغا حشر کاشمیری

رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی

دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں

امام بخش ناسخ

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا

سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا

الطاف حسین حالی

کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے

رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا

ہجر ناظم علی خان

ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد

کٹ رہی ہے زندگی آرام سے

محشر عنایتی

یاد اور ان کی یاد کی اللہ رے محویت

جیسے تمام عمر کی فرصت خرید لی

مائل لکھنوی

بھول گئی وہ شکل بھی آخر

کب تک یاد کوئی رہتا ہے

احمد مشتاق

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

حسرتؔ موہانی

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اختر انصاری

تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے دل سے

نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر

فہیم شناس کاظمی

پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا

میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے

حسرتؔ موہانی

اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا

میں بھی گویا اسی کو بھول گیا

جون ایلیا

موسم یاد یوں عجلت میں نہ وارے جائیں

ہم وہ لمحے ہیں جو فرصت سے گزارے جائیں

کلدیپ کمار

لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

داغؔ دہلوی

ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر

ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے

اقبال ساجد

تمہیں یہ غم ہے کہ اب چٹھیاں نہیں آتیں

ہماری سوچو ہمیں ہچکیاں نہیں آتیں

چراغ شرما

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے