یاد پر اشعار
یاد شاعری کا بنیادی
موضوع رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناسٹلجیائی کیفیت تخلیقی اذہان کو زیادہ بھاتی ہے ۔ یہ یاد محبوب کی بھی ہے اس کے وعدوں کی بھی اور اس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحموں کی بھی۔ اس میں ایک کسک بھی ہے اور وہ لطف بھی جو حال کی تلخی کو قابل برداشت بنا دیتا ہے ۔ یاد کے موضوع کو شاعروں نے کن کن صورتوں میں برتا ہے اور یاد کی کن کن نامعلوم کیفیتوں کو زبان دی ہے اس کا اندازہ ان شعروں سے ہوتا ہے ۔
ہمیں یاد رکھنا ہمیں یاد کرنا
اگر کوئی تازہ ستم یاد آئے
کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا
یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے
-
موضوعات : تصوراور 3 مزید
ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی
-
موضوع : محبت
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
-
موضوعات : درداور 1 مزید
آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
بھلائی نہیں جا سکیں گی یہ باتیں
تمہیں یاد آئیں گے ہم یاد رکھنا
اے مظفر کس لئے بھوپال یاد آنے لگا
کیا سمجھتے تھے کہ دلی میں نہ ہوگا آسماں
کہیں یہ ترک محبت کی ابتدا تو نہیں
وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
وہ سردیوں کی دھوپ کی طرح غروب ہو گیا
لپٹ رہی ہے یاد جسم سے لحاف کی طرح
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں
-
موضوع : شکوہ
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا
اجملؔ سراج ہم اسے بھول ہوئے تو ہیں
کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا
رہ رہ کے کوندتی ہیں اندھیرے میں بجلیاں
تم یاد کر رہے ہو کہ یاد آ رہے ہو تم
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے
نہ حالت میری کچھ کہنا نہ مطلب نامہ بر کہنا
جو ممکن ہو تو یہ کہنا تمہاری یاد آتی ہے
یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی
-
موضوع : ماضی
کر کچھ ایسا کہ تجھے یاد رکھوں
بھول جانے کا تقاضا ہی سہی
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
تعاقب میں ہے میرے یاد کس کی
میں کس کو بھول جانا چاہتا ہوں
مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے
-
موضوع : ہچکی
گزر جائیں گے جب دن گزرے عالم یاد آئیں گے
ہمیں تم یاد آؤ گے تمہیں ہم یاد آئیں گے
بسی ہے سوکھے گلابوں کی بات سانسوں میں
کوئی خیال کسی یاد کے حصار میں ہے
یاد میں خواب میں تصور میں
آ کہ آنے کے ہیں ہزار طریق
-
موضوعات : تصوراور 1 مزید
تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا
-
موضوع : دل
رنگ دل رنگ نظر یاد آیا
تیرے جلووں کا اثر یاد آیا
-
موضوع : درد
وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں
رلائے گی مری یاد ان کو مدتوں صاحب
کریں گے بزم میں محسوس جب کمی میری
وہ مل نہ سکے یاد تو ہے ان کی سلامت
اس یاد سے بھی ہم نے بہت کام لیا ہے
خیر سے دل کو تری یاد سے کچھ کام تو ہے
وصل کی شب نہ سہی ہجر کا ہنگام تو ہے
-
موضوعات : دلاور 2 مزید
گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے
-
موضوع : چارہ گر
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
-
موضوع : دل
کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا
-
موضوعات : بیداراور 2 مزید
ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے
بھول گئی وہ شکل بھی آخر
کب تک یاد کوئی رہتا ہے
-
موضوع : صورت
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
-
موضوع : مشہور اشعار
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے دل سے
نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر
-
موضوع : دل
پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا
میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے
اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
موسم یاد یوں عجلت میں نہ وارے جائیں
ہم وہ لمحے ہیں جو فرصت سے گزارے جائیں
لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر
ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے