Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qateel Shifai's Photo'

قتیل شفائی

1919 - 2001 | لاہور, پاکستان

مقبول ترین شاعروں میں شامل۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ اپنی غزل ’گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لئے مشہور

مقبول ترین شاعروں میں شامل۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ اپنی غزل ’گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لئے مشہور

قتیل شفائی کے اشعار

70.1K
Favorite

باعتبار

یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں

میرا نہیں تو دل کا کہا مان جائیے

جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں

رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر

یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی

کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں

ہم نے مٹا دئے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے

جیت لے جائے کوئی مجھ کو نصیبوں والا

زندگی نے مجھے داؤں پہ لگا رکھا ہے

نہ چھاؤں کرنے کو ہے وہ آنچل نہ چین لینے کو ہیں وہ بانہیں

مسافروں کے قریب آ کر ہر اک بسیرا پلٹ گیا ہے

وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ

پھر کیا ہوا اگر وہ بھی ہرجائی بن گیا

سوچ کو جرأت پرواز تو مل لینے دو

یہ زمیں اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

کیوں شریک غم بناتے ہو کسی کو اے قتیلؔ

اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھاؤ چپ رہو

دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر

جان لے لے مری صیاد مگر پیار کے ساتھ

احباب کو دے رہا ہوں دھوکا

چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا

نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا

یارو یہ دور ضعف بصارت کا دور ہے

آندھی اٹھے تو اس کو گھٹا کہہ لیا کرو

یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو

جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو

ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح

پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے

ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں

سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ

تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا

تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی

تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ

جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا

قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح

مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت

اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے

بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا

مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی

یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

حالات سے خوف کھا رہا ہوں

شیشے کے محل بنا رہا ہوں

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج

بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں

میں جب قتیلؔ اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوں

اب میرا پیار مجھ سے دانائی چاہتا ہے

تم آ سکو تو شب کو بڑھا دو کچھ اور بھی

اپنے کہے میں صبح کا تارا ہے ان دنوں

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں

ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لیا پاؤں میں

میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا

جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں

غم ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ

مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی

تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا

میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا

گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے

کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں

برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے

نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ بت خانہ

تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے

گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں

کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں

خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب

دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

تیز دھوپ میں آئی ایسی لہر سردی کی

موم کا ہر اک پتلا بچ گیا پگھلنے سے

زندگی میں بھی چلوں گا ترے پیچھے پیچھے

تو مرے دوست کا نقش کف پا ہو جانا

کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام

دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں

اپنے لیے اب ایک ہی راہ نجات ہے

ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے