Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kaif Bhopali's Photo'

کیف بھوپالی

1917 - 1991 | بھوپال, انڈیا

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

ممتاز مقبول شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ فلم’پاکیزہ‘ کے گیتوں کے لئے مشہور

کیف بھوپالی کے اشعار

37.9K
Favorite

باعتبار

زندگی شاید اسی کا نام ہے

دوریاں مجبوریاں تنہائیاں

داغ دنیا نے دیے زخم زمانے سے ملے

ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے

تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے

ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا

میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے

بجھتے بجھتے ایک زمانا لگتا ہے

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا

امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج

ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے

ایک کمی تھی تاج محل میں

میں نے تری تصویر لگا دی

اک نیا زخم ملا ایک نئی عمر ملی

جب کسی شہر میں کچھ یار پرانے سے ملے

ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگا لوں

مرا عشق بے مزا تھا تری دشمنی سے پہلے

گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو

آندھیو تم نے درختوں کو گرایا ہوگا

تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے

تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں

اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا

جناب کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی

یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں

مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو

مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں

کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح

وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں

کچھ محبت کو نہ تھا چین سے رکھنا منظور

اور کچھ ان کی عنایات نے جینے نہ دیا

در و دیوار پہ شکلیں سی بنانے آئی

پھر یہ بارش مری تنہائی چرانے آئی

ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے

وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے

جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے

اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے

وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا

دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے

چاہتا ہوں پھونک دوں اس شہر کو

شہر میں ان کا بھی گھر ہے کیا کروں

مت دیکھ کہ پھرتا ہوں ترے ہجر میں زندہ

یہ پوچھ کہ جینے میں مزہ ہے کہ نہیں ہے

آپ نے جھوٹا وعدہ کر کے

آج ہماری عمر بڑھا دی

کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ

ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے

اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط

خون سے کیوں تحریر نہیں ہے

سچ تو یہ ہے پھول کا دل بھی چھلنی ہے

ہنستا چہرہ ایک بہانا لگتا ہے

چار جانب دیکھ کر سچ بولئے

آدمی پھرتے ہیں سرکاری بہت

اس گلستاں کی یہی ریت ہے اے شاخ گل

تو نے جس پھول کو پالا وہ پرایا ہوگا

مے کشو آگے بڑھو تشنہ لبو آگے بڑھو

اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے چھینا جائے ہے

یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتیں

ہمارے عہد میں مکاریاں نہیں چلتیں

تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے

تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے

ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں

الجھنیں فکریں قیاس آرائیاں

میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا

دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی

چلتے ہیں بچ کے شیخ و برہمن کے سائے سے

اپنا یہی عمل ہے برے آدمی کے ساتھ

میرے دل نے دیکھا ہے یوں بھی ان کو الجھن میں

بار بار کمرے میں بار بار آنگن میں

ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں

تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے