Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qateel Shifai's Photo'

قتیل شفائی

1919 - 2001 | لاہور, پاکستان

مقبول ترین شاعروں میں شامل۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ اپنی غزل ’گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لئے مشہور

مقبول ترین شاعروں میں شامل۔ ممتاز فلم نغمہ نگار۔ اپنی غزل ’گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں‘ کے لئے مشہور

قتیل شفائی کے اشعار

73.5K
Favorite

باعتبار

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ

جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے

موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں

یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی

وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں

لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں

تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو

اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں

یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں

خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں

جیسے برسات کی رم جھم میں سماں ہوتا ہے

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا

اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب

دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

ہم اسے یاد بہت آئیں گے

جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم

دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

احباب کو دے رہا ہوں دھوکا

چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں

میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا

گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا

گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں

کوئی بدلی تری پازیب سے ٹکرائی ہے

کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام

دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں

جیت لے جائے کوئی مجھ کو نصیبوں والا

زندگی نے مجھے داؤں پہ لگا رکھا ہے

اچھا یقیں نہیں ہے تو کشتی ڈبا کے دیکھ

اک تو ہی ناخدا نہیں ظالم خدا بھی ہے

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں

میرا نہیں تو دل کا کہا مان جائیے

مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی

یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

میں جب قتیلؔ اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوں

اب میرا پیار مجھ سے دانائی چاہتا ہے

جس برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے

میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے

رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر

یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے

مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت

اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج

بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں

ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا

قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے

اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

ابھی تو بات کرو ہم سے دوستوں کی طرح

پھر اختلاف کے پہلو نکالتے رہنا

حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں

یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو

جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو

حالات سے خوف کھا رہا ہوں

شیشے کے محل بنا رہا ہوں

رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ

ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ

نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا

نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے

ہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں

یارو یہ دور ضعف بصارت کا دور ہے

آندھی اٹھے تو اس کو گھٹا کہہ لیا کرو

تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی

تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیلؔ

مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا

اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ

پھر کیا ہوا اگر وہ بھی ہرجائی بن گیا

میں اپنے دل سے نکالوں خیال کس کس کا

جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام

کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے

سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ

تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا

ترک وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ

مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے

Recitation

بولیے