Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غم پر اشعار

غم زندگی میں ایک مستقل

وجود کی حیثیت سے قائم ہے اس کے مقابلے میں خوشی کی حیثیت بہت عارضی ہے ۔ شاعری میں غمِ دوراں ، غمِ جاناں ، غمِ عشق ، غمِ روزگا جیسی ترکیبیں کثرت کے سا تھ استعمال میں آئی ہیں ۔ شاعری کا یہ حصہ دراصل زندگی کے سچ کا ایک تکلیف دہ بیانیہ ہے۔ ہمارا یہ انتخاب غم اوردکھ کے وسیع ترعلاقے کی ایک چھوٹی سی سیر ہے۔

غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا

فنا نظامی کانپوری

نہ تو رنج و غم سے ہی ربط ہے نہ ہی آشنائے خوشی ہوں میں

مری زندگی بھی عجیب ہے اسے منزلوں کا پتا نہیں

سلیم صدیقی

غم میں ڈوبے ہی رہے دم نہ ہمارا نکلا

بحر ہستی کا بہت دور کنارا نکلا

بیخود دہلوی

اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے

یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے

میر انیس

غم و الم سے جو تعبیر کی خوشی میں نے

بہت قریب سے دیکھی ہے زندگی میں نے

فگار اناوی

اسے بھی جاتے ہوئے تم نے مجھ سے چھین لیا

تمہارا غم تو مری آرزو کا زیور تھا

آزاد گلاٹی

یارو حدود غم سے گزرنے لگا ہوں میں

مجھ کو سمیٹ لو کہ بکھرنے لگا ہوں میں

فراغ روہوی

تم عزیز اور تمہارا غم بھی عزیز

کس سے کس کا گلا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری

غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے

درد کی درد سے دوا کیجے

منظر لکھنوی

چنگاریاں نہ ڈال مرے دل کے گھاؤ میں

میں خود ہی جل رہا ہوں غموں کے الاؤ میں

سیف زلفی

وہ بات ذرا سی جسے کہتے ہیں غم دل

سمجھانے میں اک عمر گزر جائے ہے پیارے

کلیم عاجز

غم کی تکمیل کا سامان ہوا ہے پیدا

لائق فخر مری بے سر و سامانی ہے

ہینسن ریحانی

مری روداد غم وہ سن رہے ہیں

تبسم سا لبوں پر آ رہا ہے

جگر مراد آبادی

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

کیا کہوں کس طرح سے جیتا ہوں

غم کو کھاتا ہوں آنسو پیتا ہوں

سید محمد میر اثر

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

بشیر بدر

ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے

جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں

علی جواد زیدی

خامشی سے ہوئی فغاں سے ہوئی

ابتدا رنج کی کہاں سے ہوئی

ادا جعفری

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں

میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

ساحر لدھیانوی

غم ہے آوارہ اکیلے میں بھٹک جاتا ہے

جس جگہ رہئے وہاں ملتے ملاتے رہئے

ندا فاضلی

زندگی دی حساب سے اس نے

اور غم بے حساب لکھا ہے

اعجاز انصاری

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک

مرزا غالب

شکوۂ غم ترے حضور کیا

ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

حسرتؔ موہانی

الٰہی ایک غم روزگار کیا کم تھا

کہ عشق بھیج دیا جان مبتلا کے لیے

حفیظ جالندھری

خرد ڈھونڈھتی رہ گئی وجہ غم

مزا غم کا درد آشنا لے گیا

کالی داس گپتا رضا

نہ جانے ہار ہے یا جیت کیا ہے

غموں پر مسکرانا آ گیا ہے

سیداحتشام حسین

اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے

بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

شکیل بدایونی

غم عشق ہی نے کاٹی غم عشق کی مصیبت

اسی موج نے ڈبویا اسی موج نے ابھارا

فاروق بانسپاری

عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا

پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے

دتا تریہ کیفی

پوچھو ذرا یہ کون سی دنیا سے آئے ہیں

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ہمیں کوئی غم نہیں

عقیل نعمانی

زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب

عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا

اختر شیرانی

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

مرزا غالب

ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا

تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں

غلام محمد قاصر

میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں

پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں

فرحت احساس

مری زندگی کا حاصل ترے غم کی پاسداری

ترے غم کی آبرو ہے مجھے ہر خوشی سے پیاری

عامر عثمانی

غم مجھے ناتوان رکھتا ہے

عشق بھی اک نشان رکھتا ہے

جرأت قلندر بخش

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

کیفی اعظمی

بھولے بسرے ہوئے غم پھر ابھر آتے ہیں کئی

آئینہ دیکھیں تو چہرے نظر آتے ہیں کئی

فضیل جعفری

غم سے بہل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں

درد میں ڈھل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں

پیرزادہ قاسم

غموں سے بیر تھا سو ہم نے خود کشی کر لی

شجر گرا کے پرندوں سے انتقام لیا

بال موہن پانڈے

اے غم دنیا تجھے کیا علم تیرے واسطے

کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی

ساحر لدھیانوی

غم حبیب نہیں کچھ غم جہاں سے الگ

یہ اہل درد نے کیا مسئلے اٹھائے ہیں

ابو محمد سحر

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں

اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

جون ایلیا

تکمیل آرزو سے بھی ہوتا ہے غم کبھی

ایسی دعا نہ مانگ جسے بد دعا کہیں

ابو محمد سحر

تجھ کو پا کر بھی نہ کم ہو سکی بے تابئ دل

اتنا آسان ترے عشق کا غم تھا ہی نہیں

فراق گورکھپوری

بقدر ذوق میرے اشک غم کی ترجمانی ہے

کوئی کہتا ہے موتی ہے کوئی کہتا ہے پانی ہے

فگار اناوی

رہیں غم کی شرر انگیزیاں یارب قیامت تک

حیاؔ غم سے نہ ملتی گر کبھی فرصت تو اچھا تھا

حیا لکھنوی

اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت

یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

چراغ حسن حسرت

دکھ دے یا رسوائی دے

غم کو مرے گہرائی دے

سلیم احمد

غم مجھے دیتے ہو اوروں کی خوشی کے واسطے

کیوں برے بنتے ہو تم ناحق کسی کے واسطے

ریاضؔ خیرآبادی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے