احمد مشتاق کے اشعار
تماشہ گاہ جہاں میں مجال دید کسے
یہی بہت ہے اگر سرسری گزر جائیں
یہی دنیا تھی مگر آج بھی یوں لگتا ہے
جیسے کاٹی ہوں ترے ہجر کی راتیں کہیں اور
اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا
جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا
بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
جیسے پو پھٹ رہی ہو جنگل میں
یوں کوئی مسکرائے جاتا ہے
چپ کہیں اور لیے پھرتی تھی باتیں کہیں اور
دن کہیں اور گزرتے تھے تو راتیں کہیں اور
گزرے ہزار بادل پلکوں کے سائے سائے
اترے ہزار سورج اک شہ نشین دل پر
وہاں سلام کو آتی ہے ننگے پاؤں بہار
کھلے تھے پھول جہاں تیرے مسکرانے سے
فضائے دل پہ کہیں چھا نہ جائے یاس کا رنگ
کہاں ہو تم کہ بدلنے لگا ہے گھاس کا رنگ
عمر بھر دکھ سہتے سہتے آخر اتنا تو ہوا
اپنی چپ کو دیکھ لیتا ہوں صدا بنتے ہوئے
ملنے کی یہ کون گھڑی تھی
باہر ہجر کی رات کھڑی تھی
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
-
موضوع : یاد رفتگاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
-
موضوع : یاد رفتگاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
-
موضوع : بڑھاپا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت دیکھ کر
جن کو لکھنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو مقدر تھا اسے تو روکنا بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں ناگہانی ہو گئیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک رات چاندنی مرے بستر پہ آئی تھی
میں نے تراش کر ترا چہرہ بنا دیا
-
موضوع : صورت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بہت اداس ہو تم اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے
سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں
ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں
-
موضوع : دھوپ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
-
موضوع : ملاقات
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا
جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے
ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی
-
موضوع : شام
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا
رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا
گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
تشریح
احمد مشتاق کا یہ شعر مضمون کی ندرت کے اعتبار سے بہت دلچسپ ہے۔ احمد مشتاق کا امتیاز و اختصاص یہ ہے کہ وہ نہایت سیدھے سادے اور عام تجربات اور مشاہدات کو کچھ اس طرح شعری پیکر میں ڈھالتے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔ اس شعر میں دو کردار ہیں اور دونوں کے بیچ ایک چھوٹا سا مکالمہ بھی ہے۔ اگر شعر کے تلازمات میں خود شعری کردار، ہوا اور رات نہ ہوتے تو شعری کردار کی حیثیت اکہری ہو کر رہ جاتی۔ مگر رات اور ہوا کی مدد سے جو پیکر بنایا گیا ہے اس سے شعری کردار کی حیثیت عاشق کی ہوجاتی ہے۔ لیکن عاشق و معشوق دونوں کی حیثیت مختلف ہے۔ عاشق جہاں اپنے آپ کو مناظر فطرت کا ایک حصہ مان کر اپنی محبوبہ سے اس طرف متوجہ ہونے کو کہتا ہے وہیں محبوبہ اس قدر عملی یعنیPracticalہے کہ اسے ایسے رومان انگیز ماحول میں بھی اپنی پڑھائی یاد آجاتی ہیں۔ یہاں احمد فراز کا یہ شعر یاد آجاتا ہے؎
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو
زیرِ نظر شعر میں شعری کردار کی رومانی فطرت کا جب زندگی کی ٹھوس حقیقت سے سروکار رکھنے والے معشوق سے ٹکراؤ ہوجاتا ہے تو ایک المناک صورت شعر کے آہنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ شعری کردار جب یہ کہتا ہے کہ ’میں نے کہا کہ دیکھ‘ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی باتوں میں محبوب کو کوئی دلچسپی نہیں اور وہ اکتا کر اٹھنے لگتا ہے۔ تب شعری کردار پہلے خودمتعجب ہوا اور پھر رات کو دیکھنے کے لئے کہتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس کے محبوب کو پڑھائی کا وقت یاد آجاتا ہے
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
-
موضوع : شام
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے
درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو
-
موضوع : آب دیدہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دکھ کے سفر پہ دل کو روانہ تو کر دیا
اب ساری عمر ہاتھ ہلاتے رہیں گے ہم
-
موضوع : الوداع
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈھتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
-
موضوع : تنہائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
-
موضوع : یاد رفتگاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس چلے آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو
تشریح
یہ شعر احمد مشتاق کے بہترین اشعار میں سے ایک ہے۔ شاعر نے الفاظ سے جو کیفیت پیدا کی ہے اس کا جواب نہیں۔ اس میں سوچ کی مناسبت سے گم اور دونوں کی رعایت سے دھیان نے مضمون میں جان ڈال دی ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ملنے جاتے ہیں مگر ان کا محبوب کسی سوچ میں گم بیٹھا ہے۔ چنانچہ شاعر اپنے محبوب کو اس حال میں دیکھ کر واپس چلے آتے ہیں کیونکہ انہیں محبوب کا اپنے دھیان میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔ اس شعر میں عشق کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی عام مزاج کا عاشق ہوتا تو اپنے محبوب سے وصل کا موقع اس بات پر نہیں گنواتا کہ اس کا محبوب اپنے دھیان میں گم ہے۔ مگر یہاں عاشق کو اپنے محبوب کی یہ ادا بھی پسند آتی ہے اور وہ اپنے محبوب کو دھیان کی حالت میں چھوڑ کر واپس چلا آتا۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
-
موضوع : رسوائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سنگ اٹھانا تو بڑی بات ہے اب شہر کے لوگ
آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے دیوانے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو نے ہی تو چاہا تھا کہ ملتا رہوں تجھ سے
تیری یہی مرضی ہے تو اچھا نہیں ملتا
اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا
خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ وہ موسم ہے جس میں کوئی پتا بھی نہیں ہلتا
دل تنہا اٹھاتا ہے صعوبت شام ہجراں کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے