Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

موت پر اشعار

موت سب سے بڑی سچائی

اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، سوال قائم کرتا رہا ہے اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا ہے لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے ۔ شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں سب سے زیادہ ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔ عشق میں ناکامی اور ہجر کا دکھ جھیلتے رہنے کی وجہ سے عاشق موت کی تمنا بھی کرتا ہے ۔موت کو شاعری میں برتنے کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے ۔

اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خلل

احباب زیر خاک سلا کر چلے گئے

جوشؔ ملسیانی

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

حیدر علی آتش

یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے

کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے

مینا کماری ناز

اک محبت بھرے سنیما میں

میرے مرنے کا سین میرے خواب

وجے شرما

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی

شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم

نامعلوم

موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب

زندگی جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں

حیدر قریشی

چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی

خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

اکبر حیدرآبادی

زندگی کی بساط پر باقیؔ

موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ

باقی صدیقی

نیند کو لوگ موت کہتے ہیں

خواب کا نام زندگی بھی ہے

احسن یوسف زئی

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

تشریح

چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:

ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ

اب عناصر میں اعتدال کہاں

انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

شفق سوپوری

چکبست برج نرائن

موت کے ساتھ ہوئی ہے مری شادی سو ظفرؔ

عمر کے آخری لمحات میں دولہا ہوا میں

ظفر اقبال

زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے

موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

امن لکھنوی

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

رئیس فروغ

موت ہی انسان کی دشمن نہیں

زندگی بھی جان لے کر جائے گی

عرش ملسیانی

پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع

وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں

امیر مینائی

مری نعش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں

اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا

صفی لکھنوی

اے ہجر وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا

لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے

ہجر ناظم علی خان

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی

جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم

مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے

مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا

منور رانا

بحر غم سے پار ہونے کے لیے

موت کو ساحل بنایا جائے گا

جلیل مانک پوری

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی

بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ

بیدم شاہ وارثی

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

کیفی اعظمی

زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں

موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے

حفیظ جالندھری

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر

عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

بشیر بدر

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

احمد امیٹھوی

موت بھی دور بہت دور کہیں پھرتی ہے

کون اب آ کے اسیروں کو رہائی دے گا

محمد علوی

نہ سکندر ہے نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ جم

بے محل خاک میں ہیں قصر بنانے والے

مرزارضا برق ؔ

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

تشریح

یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔

شفق سوپوری

مرزا غالب

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ

زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

ساغر صدیقی

آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت

مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی

اکبر الہ آبادی

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے

سیماب اکبرآبادی

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خالد شریف

موت کا بھی علاج ہو شاید

زندگی کا کوئی علاج نہیں

فراق گورکھپوری

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

فانی بدایونی

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی

گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

امید فاضلی

بندھن سا اک بندھا تھا رگ و پے سے جسم میں

مرنے کے بعد ہاتھ سے موتی بکھر گئے

بشیر الدین احمد دہلوی

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

مرزا شوقؔ  لکھنوی

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں

زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ

فراق گورکھپوری

اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب

خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں

حنیف کیفی

جانے کیوں اک خیال سا آیا

میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی

خلیل الرحمن اعظمی

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر

ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

سخن دہلوی

جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی

ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے

عبد المجید سالک

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

ثاقب لکھنوی

موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا نہ رہا

فانی بدایونی

گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں

چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا

زیب غوری

وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں

انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

بشیر بدر

دل کئی سال سے مرگھٹ کی طرح سونا ہے

ہم کئی سال سے روشن ہیں چتاؤں کی طرح

عقیل نعمانی

میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں

کون یہاں سو سال جیا ہے

محمد علوی

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

محمود رامپوری

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے