آنسو پر اشعار
آنسوؤں کا یہ شعری
بیانیہ بہت متنوع ،وسیع اور رنگا رنگ ہے ۔ آنسو صرف آنکھ سے بہنے والا پانی ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کبھی دکھ اور کبھی خوشی کی جو زبردست کیفیت ہے وہ بظاہر پانی کے ان قطروں کو انتہائی مقدس بنا دیتی ہے ۔ شاعری میں آنسو کا سیاق اپنی اکثر صورتوں میں عشق اور اس میں بھوگے جانے والے دکھ سےوا بستہ ہے ۔ عاشق کس طور پر آنسوؤں کو ضبط کرتا ہے اور کس طرح بالآخر یہ آنسو بہہ کر اس کو رسوا کرتے ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔
اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
-
موضوع : جدائی
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا
-
موضوع : جدائی
مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے
-
موضوع : شراب
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے
کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں
کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے
روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ابھی تک گھر کی دولت گھر میں ہے
کوزہ جیسے کہ چھلک جائے ہے بھر جانے پر
کوئی آنسو ہی بہا دے مرے مر جانے پر
میں جو رویا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے
حسن کی فطرت میں شامل ہے محبت کا مزاج
-
موضوع : محبت
بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا
آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا
رسا ہوں یا نہ ہوں نالے یہ نالوں کا مقدر ہے
حفیظؔ آنسو بہا کر جی تو ہلکا کر لیا میں نے
مسکاتی آنکھوں میں اکثر
دیکھے ہم نے روتے خواب
-
موضوع : خواب
پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں
میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی
تھمے آنسو تو پھر تم شوق سے گھر کو چلے جانا
کہاں جاتے ہو اس طوفان میں پانی ذرا ٹھہرے
جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
درد کے عنواں بدل کر رہ گئے
-
موضوع : درد
اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد
اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے
تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو
رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر
سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
آج تو ایسے بجلی چمکی بارش آئی کھڑکی بھیگی
جیسے بادل کھینچ رہا ہو میرے اشکوں کی تصویریں
-
موضوعات : بارشاور 1 مزید
یوں تو اشکوں سے بھی ہوتا ہے الم کا اظہار
ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے
میری اک عمر اور اک عہد کی تاریخ رقم ہے جس پر
کیسے روکوں کہ وہ آنسو مری آنکھوں سے گرا جاتا ہے
وہ پوچھتے ہیں دل مبتلا کا حال اور ہم
جواب میں فقط آنسو بہائے جاتے ہیں
دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا
-
موضوع : دل
کبھی دل سے گزرتی ہو کہیں آنکھوں سے بہتی ہو
تجھے پھر بھی کبھی جوئے رواں ہم کچھ نہیں کہتے
رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں
اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے
محفل کے بیچ سن کے مرے سوز دل کا حال
بے اختیار شمع کے آنسو ڈھلک پڑے
دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر
راز کو مشتہر کریں کیوں کر
وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی
شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا
آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا
-
موضوعات : آنکھاور 2 مزید
کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں
اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں
سوز غم ہی سے مری آنکھ میں آنسو آئے
سوچتا ہوں کہ اسے آگ کہوں یا پانی
لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی گرمی ہو سردی ہو
نہیں رکتی کبھی برسات جب سے تم نہیں آئے
-
موضوعات : انتظاراور 2 مزید
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں
نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن
کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے
روز اچھے نہیں لگتے آنسو
خاص موقعوں پہ مزا دیتے ہیں
کوئی بادل ہو تو تھم جائے مگر اشک مرے
ایک رفتار سے دن رات برابر برسے
آپ کو خون کے آنسو ہی رلانا ہوگا
حال دل کہنے کو ہم اپنا اگر بیٹھ گئے