Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنسو پر اشعار

آنسوؤں کا یہ شعری

بیانیہ بہت متنوع ،وسیع اور رنگا رنگ ہے ۔ آنسو صرف آنکھ سے بہنے والا پانی ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کبھی دکھ اور کبھی خوشی کی جو زبردست کیفیت ہے وہ بظاہر پانی کے ان قطروں کو انتہائی مقدس بنا دیتی ہے ۔ شاعری میں آنسو کا سیاق اپنی اکثر صورتوں میں عشق اور اس میں بھوگے جانے والے دکھ سےوا بستہ ہے ۔ عاشق کس طور پر آنسوؤں کو ضبط کرتا ہے اور کس طرح بالآخر یہ آنسو بہہ کر اس کو رسوا کرتے ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔

اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں

آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

شہزاد احمد

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

سید عابد علی عابد

بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے

اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

جمال احسانی

مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے

مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

انور مرزاپوری

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں

یہ کس کا جمال آ گیا ہے

ادا جعفری

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

کیفی اعظمی

کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں

کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے

صوفی غلام مصطفےٰ تبسم

روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے

کچھ نہیں بگڑا ابھی تک گھر کی دولت گھر میں ہے

احسن مارہروی

کوزہ جیسے کہ چھلک جائے ہے بھر جانے پر

کوئی آنسو ہی بہا دے مرے مر جانے پر

امرتانشو شرما

میں جو رویا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے

حسن کی فطرت میں شامل ہے محبت کا مزاج

انور صابری

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا

آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا

احمد مشتاق

رسا ہوں یا نہ ہوں نالے یہ نالوں کا مقدر ہے

حفیظؔ آنسو بہا کر جی تو ہلکا کر لیا میں نے

حفیظ میرٹھی

مسکاتی آنکھوں میں اکثر

دیکھے ہم نے روتے خواب

افضل ہزاروی

پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا

اک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا

نامعلوم

پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک

پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے

اسرار الحق مجاز

پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات

یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

شہریار

ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

منور رانا

گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو

پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے

سلیم احمد

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

معین احسن جذبی

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں

آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ناصر کاظمی

ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں

میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی

جوشؔ ملسیانی

تھمے آنسو تو پھر تم شوق سے گھر کو چلے جانا

کہاں جاتے ہو اس طوفان میں پانی ذرا ٹھہرے

لالہ مادھو رام جوہر

جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے

درد کے عنواں بدل کر رہ گئے

صوفی غلام مصطفےٰ تبسم

اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد

اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے

احسن علی خاں

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے

بدھ سنگھ قلندر

آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر

سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں

بیخود بدایونی

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو

مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زیدی

آج تو ایسے بجلی چمکی بارش آئی کھڑکی بھیگی

جیسے بادل کھینچ رہا ہو میرے اشکوں کی تصویریں

مکیش عالم

یوں تو اشکوں سے بھی ہوتا ہے الم کا اظہار

ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے

مقبول نقش

میری اک عمر اور اک عہد کی تاریخ رقم ہے جس پر

کیسے روکوں کہ وہ آنسو مری آنکھوں سے گرا جاتا ہے

فرحت احساس

وہ پوچھتے ہیں دل مبتلا کا حال اور ہم

جواب میں فقط آنسو بہائے جاتے ہیں

ہادی مچھلی شہری

دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا

آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا

خواجہ میر درد

کبھی دل سے گزرتی ہو کہیں آنکھوں سے بہتی ہو

تجھے پھر بھی کبھی جوئے رواں ہم کچھ نہیں کہتے

افضل گوہر راؤ

رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں

اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے

آنند نرائن ملا

محفل کے بیچ سن کے مرے سوز دل کا حال

بے اختیار شمع کے آنسو ڈھلک پڑے

تاباں عبد الحی

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

وزیر علی صبا لکھنؤی

دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر

راز کو مشتہر کریں کیوں کر

مبارک عظیم آبادی

وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

بسمل صابری

ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو ان کی بزم میں

بوند بھر پانی سے ساری آبرو پانی ہوئی

شیخ ابراہیم ذوقؔ

شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا

آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا

بشیر بدر

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں

اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں

کفیل آزر امروہوی

سوز غم ہی سے مری آنکھ میں آنسو آئے

سوچتا ہوں کہ اسے آگ کہوں یا پانی

جوشؔ ملسیانی

لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی گرمی ہو سردی ہو

نہیں رکتی کبھی برسات جب سے تم نہیں آئے

انور شعور

جو تیری بزم سے اٹھا وہ اس طرح اٹھا

کسی کی آنکھ میں آنسو کسی کے دامن میں

سالک لکھنوی

کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

شکیب جلالی

زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی

ان سے بچھڑی تو کوئی آنکھ میں آنسو بھی نہیں

زبیر رضوی

نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن

کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے

سراج اورنگ آبادی

روز اچھے نہیں لگتے آنسو

خاص موقعوں پہ مزا دیتے ہیں

محمد علوی

کوئی بادل ہو تو تھم جائے مگر اشک مرے

ایک رفتار سے دن رات برابر برسے

بشیر بدر

آپ کو خون کے آنسو ہی رلانا ہوگا

حال دل کہنے کو ہم اپنا اگر بیٹھ گئے

زین العابدین خاں عارف

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے