تنہائی پر اشعار
کلاسیکی شاعری میں تنہائی
روایتی عشق کی پیدا کردہ تھی ۔ محبوب وصل سے انکار کردیتا تھا تو عاشق تنہا ہو جاتا تھا ۔ اس تنہائی میں محبوب کی یاد اس کا سہارا بنتی لیکن تنہائی کو جدید شاعروں نے جس وسیع سیاق میں برتا ہےاور اسے جدید دور کے جس بڑے عذاب کے طور دیکھا ہے اس سے شعری موضوعات میں اور اضافہ ہوا ہے ۔ تنہائی کو موضوع بنانے والے شعروں کا ہمارا یہ انتخاب ایک سطح پر جدید غزل کو سمجھنے میں بھی معاون ہوگا ۔
یادوں کا اک ہجوم تھا تنہا نہیں تھی میری ذات
خود کلامی میں ہوئی تمام شب انہیں سے بات
بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے
آدمی آدمی اکیلا ہے
تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے
ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں
-
موضوع : ویرانی
شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
-
موضوعات : انتظاراور 2 مزید
یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی
کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا
کسی حالت میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی
ہے یہی ایک خرابی مری تنہائی کی
میں کس سے کرتا یہاں گفتگو کوئی بھی نہ تھا
نہیں تھا میرے مقابل جو تو کوئی بھی نہ تھا
ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے
کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا
-
موضوع : رسوائی
کتنے چہرے کتنی شکلیں پھر بھی تنہائی وہی
کون لے آیا مجھے ان آئینوں کے درمیاں
گو مجھے احساس تنہائی رہا شدت کے ساتھ
کاٹ دی آدھی صدی ایک اجنبی عورت کے ساتھ
کوئی کیا جانے کہ ہے روز قیامت کیا چیز
دوسرا نام ہے میری شب تنہائی کا
دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے
کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : خواب
پنچھی سارے پیڑ سے اڑ جائیں گے
صحن میں اک خامشی رہ جائے گی
اس بلندی پہ بہت تنہا ہوں
کاش میں سب کے برابر ہوتا
اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے
کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے
سر بلندی مری تنہائی تک آ پہنچی ہے
میں وہاں ہوں کہ جہاں کوئی نہیں میرے سوا
اداسیاں ہیں جو دن میں تو شب میں تنہائی
بسا کے دیکھ لیا شہر آرزو میں نے
یادوں کے شبستان میں بیٹھا ہوا سائل
تنہا جو نظر آتا ہے تنہا نہیں ہوتا
-
موضوع : یاد
میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا
اپنی تصویر کے پیچھے ترا چہرا دیکھا
مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں
یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں
اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
-
موضوعات : شہراور 1 مزید
پکارا جب مجھے تنہائی نے تو یاد آیا
کہ اپنے ساتھ بہت مختصر رہا ہوں میں
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں
مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے
-
موضوع : مسافر
دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا
تو بھی میری تنہائی میں شامل ہو
یادوں کی محفل میں کھو کر
دل اپنا تنہا تنہا ہے
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
-
موضوع : آنگن
ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں
تری یاد آنکھیں دکھانے لگی
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں
تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ
جمع کرتی ہے مجھے رات بہت مشکل سے
صبح کو گھر سے نکلتے ہی بکھرنے کے لیے
-
موضوع : حالات
یوں رات گئے کس کو صدا دیتے ہیں اکثر
وہ کون ہمارا تھا جو واپس نہیں آیہ
ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے
یہ تنہائی عجب لڑکی ہے سناٹے میں روتی ہے
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
-
موضوعات : آنچ شاعریاور 1 مزید
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
-
موضوعات : قبراور 1 مزید
میرا کرب مری تنہائی کی زینت
میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں
-
موضوع : درد
سمٹتی پھیلتی تنہائی سوتے جاگتے درد
وہ اپنے اور مرے درمیان چھوڑ گیا
تو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں
کہ اب تو تجھ سے بچھڑنے کا کوئی ڈر بھی نہیں
-
موضوع : جدائی
شہر کی بھیڑ میں شامل ہے اکیلا پن بھی
آج ہر ذہن ہے تنہائی کا مارا دیکھو
-
موضوع : ذہنی صحت
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
تشریح
یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔
شفق سوپوری
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
تری یادوں سے مہکا ہے میری تنہائی کا عالم
قیامت تک انہیں تنہائیاں میں ڈوبنا چاہوں
زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری